الجواب باسم ملھم الصواب
مرحوم نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جائیدادِ منقولہ (سونا، چاندی، زیور، کپڑے وغیرہ) اور غیرمنقولہ (دکان، مکان وغیرہ) غرض چھوٹا بڑا جو بھی سامان چھوڑا ہو، نیز مرحوم کا قرض اور ایسے واجبات جو کسی فرد یا ادارے کے ذمے ہوں، یہ سب میت کا ترکہ شمار ہوگا، اس کے بعد میت کے ترکہ کے ساتھ چند حقوق متعلق ہوتے ہیں، جنہیں بالترتیب ادا کرنا ضروری ہے: (1) سب سے پہلے میت کے دفن تک تمام ضروری مراحل پر ہونے والے جائز اور متوسط اخراجات نکالے جائیں گے، اگر کسی بالغ وارث یا کسی اور نے تبرعاً اس کا انتظام کردیا تو ترکے سے یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں۔ (2) اگر میت کے ذمے کسی کا قرض ہو تو باقی بچے ہوئے مال سے ادا کیاجائے گا، خواہ قرض کی ادائیگی میں سارا مال خرچ ہوجاے، واضح رہے کہ اگر مرحوم نے کسی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا تھا اور بیوی نے معاف بھی نہیں کیا تھا تو وہ بھی قرض شمار ہوگا۔ (3) اس کے بعد اگر میت نے کسی غیروارث کے لئے جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کی تہائی تک پوری کی جائیگی۔
ان تمام حقوق کی ادائیگی کے بعد کل جائیدادِ منقولہ و غیرمنقولہ کے 72برابر حصے کیے جائیں گے، جن میں سے9 حصے (٪12.5) بیوی کو، 12حصے (٪16.666) ہر بیٹی کو،1 حصہ (٪1.388)ہر بھائی کو اور12 حصے (٪16.666) نانی صاحبہ کو ملیں گے۔
اور زمین میں سے 20 کنال بیوی کو، 26.666 کنال ہر بیٹی کو، 2.222 کنال ہر بھائی کو اور 26.666 کنال نانی صاحبہ کو ملیں گے۔
لما فی السراجی فی المیراث:(18، ط: البشریٰ)
اما للزوجات فحالتان: الربع للواحدۃ فصاعدۃ عند عدم الولد و ولد الابن و ان سفل، و الثمن مع الولد او ولد الابن و ان سفل
و فی السراجی فی المیراث: (19، ط: البشریٰ)
و اما لبنات الصلب فاحوال ثلاث: النصف للواحدۃ، و الثلثان للاثنتین فصاعدۃ، و مع الابن للذکر مثل حظ الانثیین و ھو یعصبھن
و فی السراجی فی المیراث: (36، ط: البشریٰ)
اما العصبۃ بنفسہ: فکل ذکر لاتدخل فی نسبتہ الی المیت انثی، و ھم اربعۃ اصنفاف: جزء المیت، و اصلہ، و جزء ابیہ، و
جزء جدہ، الاقرب فالاقرب، یرجحون بقرب الدرجۃ، اعنی اولاھم بالمیراث جزء المیت ای البنون ثم بنوھم و ان سفلوا، ثم اصلہ ای الاب ثم الجد ای اب الاب و ان علا، ثم جزء ابیہ ای الاخوۃ ثم بنوھم و ان سفلوا …الخ
و فی السراجی فی المیراث: (30، ط: البشریٰ)
و للجدۃ السدس، لام کانت او لاب واحدۃ کانت او اکثر . . .الخ
و کذا فی المختصر للقدوری: (290، ط: مکتبہ الخلیل)
و کذا فی المختصر للقدوری: (291، ط: مکتبہ الخلیل)
و کذا فی المحیط البرھانی: (23/288، ط: دار احیاء التراث العربی)
و کذا فی المحیط البرھانی: (23/298، ط: دار احیاء التراث العربی)
و کذا فی کنز الدقائق: (498، ط: حقانیہ)
و کذا فی کنز الدقائق: (500، ط: حقانیہ)
و اللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد زکریا عفی عنہ
دار الافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
10/5/1442/ 2020/12/26
جلد نمبر:22 فتوی نمبر:100