سوال

اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کرتا ہے، بلا وجہ مارپیٹ اور گالم گلوچ کرتا ہے، نان ونفقہ اور دیگر حقوق بھی ادا نہیں کرتا۔خاوند کی اس بد سلوکی کی وجہ سے عورت طلاق یا خلع کا مطالبہ کرتی ہے، مگر خاوند اس پر بھی راضی نہیں ہوتا۔ بالآخر عورت عدالت کی طرف رجوع کرتی ہے اور عدالت خاوند کی بدسلوکی ثابت ہونے پر تنسیخ نکاح کا فیصلہ کردیتی ہے تو کیا یہ فیصلہ معتبر ہوگا اور اس سے نکاح فسخ ہوجائے گا؟ اگر ہو جائے گا تو رجوع کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

اگر خاوند واقعی نا قابل برداشت مارپیٹ اور ظلم کرتا ہے، نان ونفقہ اور دیگر حقوق ادا نہیں کرتا، عدالت میں حاضر ہوکر اپنا بری ہونا بھی ثابت نہیں کرتا اور آئندہ اس ظلم سے باز آنے سے انکاری ہے اور طلاق یا خلع کے ذریعے عورت کو چھوڑنے پر بھی راضی نہیں ہے تو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں متعنت کہلاتا ہے۔ مذہب مالکیہ کے مطابق بیوی ایسے متعنت خاوند سے بذریعہ عدالت خلاصی حاصل کرسکتی ہے۔
ضرورت شدیدہ کے تحت علماء احناف کا فتوی بھی اسی قول پر ہے،لہٰذا عدالت کا خاوند کے قائم مقام ہوکر تنسیخ نکاح کا فیصلہ شرعاً معتبر ہونے کی وجہ سے ایک طلاق واقع ہوگئی۔اب اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو کیا حکم ہے؟ اس سے متعلق حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ ”کفایت المفتی“ میں فرماتے ہیں:
”اگر انقضاء عدت سے قبل خاوند آجائے اور بیوی کے حقوق و نفقہ ادا کرکے اسے راضی کرلے تو بیوی اسکو مل سکتی ہے۔“
(کفایت المفتی:8/564،جامعہ فاروقیہ)
مگر چونکہ بعض فتاوی جیسے فتاوی عثمانیہ(6/313،العصر اکیڈمی) اور فتاوی فریدیہ(5/536،دارالعلوم صدیقیہ) میں تنسیخ نکاح کو طلاق بائن شمار کیا ہےاس لیے ان حضرات کے ہاں تجدید نکاح کے بغیر رجوع ممکن نہیں، لہٰذا احتیاطاً تجدید نکاح کرلینا بہتر ہے۔

لما فی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(9/7042،رشیدیہ)
أخذ القانون في مصر وسورية بجواز التفريق القضائي بين الزوجين، عملاً بمذهب الجمهور غير الحنفية، فنصت المادة الرابعة من القانون المصري رقم (25) لسنة (1920) على حق التفريق بين الزوجة وزوجها، لعدم إنفاقه عليها، إذا طلبت الزوجة التفريق بالضرورة، سواء أكان عدم الإنفاق عليها بسبب إعساره، أم كان تعنتاً منه وظلماً
وفی بحوث فی قضایا فقھیة معاصرة:(2/176،معارف القرآن)
ولکن ھناک احوالاً یجوز لھا فیھا ان ترفع امرھا الی قاضی شرعی فیفسخ ھو نکاحھا من زوجھا بولایتہ العامۃ، وذلک لاسباب معروفۃ علی اختلاف الفقھاء فیھا مثل ان یکون الزوج مفقوداً او عنیناً او مجنونا او متعنتاً لا ینفق علی زوجتہ
وفی الحیلة الناجزة:(133،دارالاشاعت)
اما المتعنت الممتنع عن الانفاق ففی مجموع الامیر ما نصہ ان منعھا نفقۃ الحال فلھا القیام ، فان لم یثبت عسرہ انفق او طلق و الّا طلق علیہ قال محشیہ قولہ و الّا طلق علیہ ای طلق علیہ الحاکم من غیر تلوم
وکذافی التفسیر المنیر:(1/724،امیر حمزہ)
وکذافی الموسوعة الفقھیة:(29/62،علوم اسلامیة)
وکذافی الحیلة الناجزة:(73،دارالاشاعت)
وکذافی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(9/7045،رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب
فرخ عثمان عفی اللہ عنہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
29/5/1442/2021/1/14
جلد نمبر:22 فتوی نمبر:149

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔