سوال

اگر سو (100) روپے والی چیز ایک مہینہ ادھار پر ایک سو دس(110) روپے میں فروخت کی گئی لیکن وقت مقررہ آنے پر مشتری بائع سے کہے کہ ریٹ(120)کر لیں اور ایک مہینہ اور مہلت دے دیں اور فریقین اس عقد ثانی پر راضی ہو جائیں تو کیا یہ بیع جائز ہو گی؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

صورتِ مسئولہ سود ہونے کی وجہ سے نا جائز ہے۔

لما فی فقہ البیوع: (1 / 545 ،معارف القرآن )
وإن زیادۃ الثمن من أجل الأجل ،و إن کان جائزا عند بدایۃ العقد، ولٰکن لا تجوز الزیاد ۃ عند التخلف فی الاداء فإنہ ربا فی معنیٰ  أتقضی أم تربی“ وذلک لأن الأجل، وإن کان منظورا عند تعیین الثمن فی بدایۃ العقد، ولاکن لما تعین الثمن فإن کلہ مقابل للمبیع، ولیس مقابل للأجل ولذلک لایجوز ”ضع و تعجل
وفی المبسوط: ( 12/117 ،دار المعرفة )
وإن من الربا أبوابا لا یکدن یخفین علی أحد منھا السلم فی السن ماکا نو ااعتادوا فی الجاھلیۃ أن الواحد منھم یسلم فی إبنۃ مخاض فإذاحل الأجل زادہ فی السن وجعلہ إبنۃ لبون لیزیدہ فی الأجل ثم یزیدہ إلا سن الحقۃوالجذ عۃ و فی ذلک نزل قولہ تعالیٰ: ﴿ولا تأکلواالربا أضعافا مضاعفۃ
وکذافی موسوعة الفقہیہ: ( 22/58 ،علوم اسلا میہ ) وکذا فی فیض الباری: (3 / 412 ،رشیدیہ )
وکذا فی الفقہ الاسلامی: (5 / 3704 ،رشیدیہ ) وکذا فی تفسیر المظہری: (1/548 ،رشیدیہ)
وکذا فی بدئع الصنائع: (4 / 400 ،رشیدیہ ) وکذا فی فتح الباری: (4 / 392 ،قدیمی کتب خانہ )
وکذا فی فیض الباری: (3 / 412 ،رشیدیہ ) وکذا فی روح المعانی: (4 / 55 ،دار احیاء التراث )
وکذا فی تفسیر القرطبی: (4 / 202 ، دار احیاء التراث) وکذا فی روح المعانی: (4 / 55 ،دار احیاء التراث )

واللہ اعلم بالصواب
محمد مجیب الرحمٰن
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2020/01/13/16/4/1444
جلد نمبر:28 فتوی نمبر:37

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔