الجواب حامداً ومصلیاً
اگر مالک وہاں تدفین پر راضی نہ ہو تو اس عذر کی وجہ سے میت کو قبر سے نکالنا جائزہے۔
لما فی الھندیة:(1/167،رشیدیہ)
اذا دفن المیت فی أرض غیرہ بغیرہ اذن مالکھا فالمالک بالخیار ان شاء أمر باخراج المیت وان شاء سوّی الارض وزرع فیھا
وفی تنویر الابصار مع الدرالمختار:(3/170،رشیدیہ)
ولا یخرج منہ)بعد إھالۃ التراب (الا)لحق آدمی (ان تکون الارض مغصوبۃ أو أخذت بشفعۃ)ویخیر المالک بین اخراجہ ومساواتہ بالارض کما جاززرعہ والبناء علیہ اذا بلی وصار ترابا
وکذافی التجنیس والزید:(2/279،ادارۃالقرآن)
وکذا فی تیین الحقائق: (1 /246 ،امدادیہ)
وکذا فی الھندیة: (2 /455 ،رشیدیہ)
وکذا فی فتح القدیر: ( 2/ 149 ، رشیدیہ)
وکذا فی البنایہ:(3/304،رشیدیہ)
وکذا فی مجمع الانھر:(1/276،المنار)
وکذا فی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(2/1556،رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب
ضیاءالرحمان عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2022/12/31/7/6/1444
جلد نمبر:28 فتوی نمبر:162