سوال

ایک آدمی فوت ہو گیا ہے اس کی چاربیٹیاں،چار بیٹے،دوبھائی اورایک بیوی ہے اور اس نے بارہ کنال زمین چھوڑی ہے،اس کی تقسیم کیسے ہو گی؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

مرحوم نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جائیدادمنقولہ(جیسے سونا،چاندی،زیورات اورکپڑے وغیرہ)اورغیر منقولہ(جیسے دوکان،مکان اورفصل وغیرہ)غرض چھوٹا بڑاجو بھی سامان چھوڑاہو،نیز مرحوم کا قرضہ اورایسے واجبات جو کسی فرد یا ادارے کے ذمے ہوں،یہ سب ترکہ شمار ہوگا۔اس کے بعد میت کے ترکہ کے ساتھ چند حقوق متعلق ہوتے ہیں جنہیں بالترتیب ادا کرنا ضروری ہے:(1)سب سے پہلے میت کے دفن تک تمام ضروری مراحل پر خرچ ہونے والے جائز اورمتوسط اخراجات نکالےجائیں گے اگر کسی بالغ وارث یا کسی اور نے تبرعا اس کا نظم کردیا تو ترکہ سےیہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں ہے ۔(2)اس کے بعد میت کے ذمے کسی کا قرض ہو تو باقی بچے ہوئے مال سے وہ ادا کیا جائے گا، خواہ قرض کی ادائیگی میں سارا مال ہی خرچ ہو جائے ۔واضح رہے کہ اگر مرحوم نے بیوی کا مہر ادا نہیں کیا تھا اور بیوی نے خوش دلی سے معاف بھی نہیں کیا تھا تو وہ بھی قرض شمار ہوگا ۔(3)اس کے بعد اگر میت نے کسی غیروارث کے لئے جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کی تہائی تک پوری کی جائے گی۔(4)ان تمام حقوق کی ادئیگی کے بعد جو بھی ترکہ بچے خواہ زمین ہو یا فصل وغیرہ وہ درج ذیل طریقے کے مطابق تقسیم کیا جائے گا:
مرحوم کی کل جائیداد کے چھیانوے برابر حصے کرکے ہر بیٹی کو7حصے،ہر بیٹے کو 14حصے اوربیوی کو12حصے دئیے جائیں۔
سوال مذکورمیں 12کنال زمین میں سے ہر بیٹی کو0.875کنال،ہر بیٹے کو1.75کنال اوربیوی کو 1.5کنال زمین ملے گی ۔

 

ما فی القرآن الکریم: (النسآء :11 )
فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیۃ توصون بھا اودین
وفی القرآن الکریم: (النسآء:10 )
للذکر مثل حظ الانثیین
وکذافی السراجی: (8 ،شرکت علمیہ )
واماالبنات الصلب فاحوال ثلث النصف للواحدۃ الثلثان للانثیین فصاعدۃ ومع الابن للذکرمثل حظ الانثیین وھویعصبھن
وکذا فی الھندیة: (6 /450 ،رشیدیة )
واماالاثنان من السبب فالزوج والزوجۃفللزوج النصف عند عدم الولد وولد الابن والربع مع الولد اوولد الابن و للزوجۃ الربع عند عدمھماوالثمن مع احدھما والزوجات والواحدة یشترکن فی الربع والثمن
وکذا فی الشامیة: (10 /550 ،رشیدیة )
الاقرب جھۃ ثم الاقرب درجۃ ثم الاقوی قرابۃ فاعتبارالترجیح اولابالجھۃ عندالاجتماع،فیقدم جزءہ کالابن وابنہ علی اصلہ کالاب وابیہ ویقدم اصلہ علی جزءابیہ کالاخوۃ لغیرام وابنائھم
وکذا فی تنویرالابصار: (10 /544 ،رشیدیة )
وکذا فی التاتارخانیة: (20 /224 ،فاروقیة )

واللہ اعلم بالصواب
کلیم اللہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2022/12/4/9/5/1444
جلد نمبر:28 فتوی نمبر:120

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔