سوال

ایک آدمی نے اپنے لیے اور اپنی بیوی کےلیے حج کی درخواستیں جمع کروائیں، جس کی مد میں 926890 روپے بینک میں جمع کروائے۔ بینک اتنی رقم ان لوگوں سے وصول کرتا ہے جو قربانی کی سہولت حاصل نہیں کرتے۔ کرونا وباء کی وجہ سے درخواستیں منسوخ ہوگئیں تو چند ماہ بعد بینک نے رقم واپس کردی۔ اب بینک نے وہ رقم واپس کی ہے جو بینک قربانی کی سہولت حاصل کرنے والوں سے وصول کیا کرتا ہے ،یعنی 972540 روپے۔ اب 45650 روپے زائد واپس کیے جارہے ہیں۔ یہ زائد رقم بینک کو واپس کرنے کی کوشش کی گئی، مگر بینک نے واپس نہیں لی اور کہا کہ ہمارے ریکارڈ کے مطابق آپ نے 972540 روپے ہی ادا کیے تھےجو آپ کو واپس کر دیے گئے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس زائد رقم کو کہاں خرچ کیا جائے؟ کیا وہ آدمی یہ زائد رقم اپنے معذور فالج زدہ داماد کو دے سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

اگر یہ معاملہ کسی سرکاری بینک سے کیا گیا ہے تو یہ زائد رقم سرکاری خزانہ کی امانت ہے، لہٰذا اسے بینک کو واپس کرنےکی مزید کوشش کی جائے اور اس مقصد کےلیے بینک کے کسی آدمی سے راہنمائی لی جا سکتی ہے۔ اگر اس بینک کو واپسی نہ ہوسکے تو کسی دوسرے ذریعہ سے سرکاری خزانہ تک یہ رقم پہنچادی جائے۔
اور اگر یہ معاملہ کسی پرائیویٹ بینک سے کیا گیا ہے تو بھی یہ رقم اس بینک کی ملکیت ہے، اسی کو واپس کرنا ضروری ہے، تاہم اگر دونوں صورتوں میں واپسی کی کوئی صورت نہ بن سکے تو پھر یہ رقم بینک کی طرف سے فقراء پر خرچ کی جا سکتی ہے، لہٰذا مذکورہ شخص کا داماد اگر مستحق ہو تو اس پر بھی یہ رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔

لما فی البحر الرائق:(8/198،رشیدیہ)
قال رحمه الله:(ويجب رد عينه في مكان غصبه) لقوله عليه الصلاة والسلام :على اليد ما أخذت حتى ترد أي على صاحب اليد ولقوله عليه الصلاة والسلام لا يحل لأحد أن يأخذ مال أخيه لاعبًا ولا جادا وإن أخذه فليرده عليه
وفیہ ایضاً:(8/369،رشیدیہ)
ويردونه على أربابه إن عرفوهم، وإلا يتصدقوا به لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد
وکذافی الشامیة:(9/635،رشیدیہ) وکذافی التنویر مع الدر المختار:(6/434،رشیدیہ
وکذافی الھندیة:(5/349،رشیدیہ) وکذافی التاتارخانیہ:(18/158،فاروقیہ)
وکذافی الموسوعة الفقھیة:(34/245،علوم اسلامیہ) وکذافی المحیط البرھانی:(8/63،بیروت)

واللہ اعلم بالصواب
کتبہ فرخ عثمان غفرلہ ولوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2/6/1442/2021/1/16
جلد نمبر:22 فتوی نمبر:161

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔