الجواب حامداومصلیا
اگر عورت کی بات سچ ہے کہ دوسرے شوہر نےعورت کے ساتھ مباشرت نہیں کی تو اس عورت کا پہلےشوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح درست نہیں ہوا،اب یہ دونوں فورا جدا ہو جائیں ،اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ یہ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے کے ساتھ نکاح کرے،جب وہ مباشرت کے بعد اپنی مرضی سے طلاق دے دےتو عدت گزار کر پھر پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتی ہے ورنہ نہیں۔
لما فی الصحیح المسلم:(1/534،رحمانیہ)
عن عائشۃ رضی اللہ تعالی عنھاان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سئل عن المرأۃ یتزوجھا الرجل فیطلقھا فتزوج رجلا فیطلقھا قبل ان یدخل بھا اتحل لزوجھا الاول قال لا حتی یذوق عسیلتھا
وکذا فی الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید:(2/204،الطارق)
ولا یتزوج مطلقتہ بثلاث حتی یطأھا غیرہ بزواج صحیح بعد مضی العدۃ الاول واشتراط الدخول بھا ثابت بالاجماع ، فلا یکفی مجرد العقد
وکذا فی الھدایة:(2/132،البشری)
وان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ أو ثنتین فی الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا، ویدخل بھا ثم یطلقھاأو یموت عنھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وشرط الدخول ثبت باشارۃ النص ،وھو أن یحمل النکاح علی الوطء
وکذا فی التنویر والدر:(5/42،رشیدیہ) وکذا فی الھندیة:(1/473،رشیدیہ)
وکذا فی البحر الرائق:(4/94،رشیدیہ) وکذا فی الشامیة:(5/44،رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ محمد انیس غفر لہ ولوالدیہ
متخصص جامعۃالحسن ساہیوال
19،7،1443/22،2،21
جلد نمبر:26 فتوی نمبر:192