سوال

ایک آدمی کی نو، دس ماہ کی بچی ہے مگر دوسرا حمل بھی ہے جو تقریبا ایک ماہ سے زائد کا ہے اور اس کی وجہ سے عورت اور اس کی بچی کی صحت بھی خراب ہوتی ہے تو کیا اس حالت میں وہ حمل گرا سکتی ہے یا نہیں؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

بلا عذر تو حمل ضائع کروانا جائز نہیں، البتہ اگر حمل کی وجہ سے عورت کی جان کو خطرہ ہو اور کوئی ماہر، دین دار ڈاکٹر مشورہ دے تو حمل ضائع کروانا جائز ہے۔

لما فی الشامیة :(9/709،رشیدیہ)
قولہ:( وجاز لعذر) کالمرضعۃ اذا ظھر بھا الحبل وانقطع لبنھا ولیس لابی الصبی ما یستاجر بہ الظئر ویخاف ھلاک الولد قالوا: یباح لھا ان تعالج فی استنزال الدم مادام الحمل مضغۃ او علقۃ ولم یخلق لہ عضو وقدروا تلک المدۃ بمائۃ وعشرین یوما، وجاز لانہ لیس بآدمی وفیہ صیانۃ الآدمی
وفی الفقہ الحنفی :(5/402،الطارق)
ومن الاعذار ایضا المرضعۃ اذا ظھر بھا الحبل، وانقطع لبنھا، ولیس لاب الصبی ما یستاجر بہ الظئر المرضع ویخاف ھلاک الولد قالوا: یباح لھا ان تعالج فی استنزال الدم مادام الحمل مضغۃ او علقۃ ولم یخلق لہ عضو۔ وقدروا تلک المدۃ بمائۃ وعشرین یوما، وجاز لانہ لیس بآدمی وفیہ صیانۃ الآدمی
وکذافی الھندیة: (5 /356،رشیدیہ)
وکذافی المحیط البرھانی:(8/83،بیروت)
وکذافی الدرالمختار: (9 /709 ،رشیدیہ)
وکذافی الفتاوی الولوالجیة :(2/343،الحرمین )
وکذافی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(4/2647،رشیدیہ)
وکذافی الفتاوی التاتارخانیة: (18 /203،فاروقیہ)
وکذافی فتاوی قاضی خان علی ھامش الھندیة :(3/428،رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب
سید ممتاز شاہ بخاری
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2023/2/25/4/8/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:83

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔