الجواب حامداً ومصلیاً
اگر دونوں طرف کے برتن الگ جنس کے ہوںمثلاً پرانے برتن سلور کے ہوں اور نئے برتن پیتل یا لوہے کے ہوں تو بہر صورت خریدو فروخت جائز ہوگی اور اگر ایک جنس کے ہوں تو پھر دیکھا جائے گا کہ یہ برتن اس علاقے میں گنتی کے حساب سے ملتے ہیں تو پھر جائز ہے اور اگر تول کر فروخت ہوتے ہیں تو پھر یہ ناجائز ہوگا ۔
لما فی الھندیة:(3/221،رشیدیہ)
وفی التجرید الاوانی المتخذۃ من الصفر والحدید تصیر عادۃ عددیۃ بالتعامل یجوز بیع بعضھا ببعض کیفما کان کذا فی التاتارخانیۃ ، لو تعارفوا بیع ھذہ الاوانی بالوزن لابالعدد لایجوز بیعھا بجنسھا الا متساویا
وفی البدائع الصنائع:(4/404،رشیدیہ)
واما بیع الاوانی الصفریۃ واحد باثنین کبیع قمقمۃبقمقمتین ونحو ذالک ، فان کان یباع عددا یجوز ، لان العدد فی العددیات لیس من اوصاف علۃ الربا، وان کان یباع وزنا لایجوز لانہ بیع مال الربابجنسہ مجازفۃ
وکذافی الشامیة:(5/258،سعید)
وکذافی المبسوط:(14/56،بیروت)
وکذافی البحرالرائق:(6/323،رشیدیہ)
وکذافی النھرالفائق:(3/531،قدیمی)
وکذافی المحیط البرھانی:(10/478،بیروت)
وکذافی فتح القدیر:(7/129،رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب
عبد القدوس بن خیر الرحمٰن
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
18/7/1442/2021/3/3
جلدنمبر:23 فتوی نمبر:197