الجواب حامداً ومصلیاً
صورت مسئولہ میں اگر مالک سے بات کرنے کے بعد یہ شخص مبیع کے نفع نقصان کا ذمہ دار بنتا ہے یعنی ضمان قبول کرتا ہے تو یہ عقد جائز ہے اور مبیع و ثمن کی جہالت بھی مضر نہیں ہے، کیونکہ وزن ہوتے ہی یہ جہالت ختم ہوجائے گی اس لیے جہالت مفضی الی النزاع نہیں ہوگی۔
اگر یہ شخص ضمان قبول نہیں کرتا تو یہ عقد صرف وعدہ بیع ہوگا۔ جب گنے کا وزن ہوجائے گا تب یہ دونوں دوبارہ ایجاب و قبول کرکے عقد کریں گے اور اس کےلیے خریدار خود وہاں موجود ہو یا اس کا کوئی وکیل موجود ہو۔
لما فی فتح القدیر:(6/248،251،رشیدیہ)
قوله (ومن باع صبرة طعام كل قفيز بدرهم جاز البيع في قفيز واحد عند أبي حنيفة رحمه الله )…وقال أبو يوسف ومحمد: صح البيع في الكل وهو قول الأئمة الثلاثة …لھما أن ھذہ الجھالۃ بیدھما إزالتھا بأن یکیلا فی المجلس والجھالۃ التی ھی کذلک لاتفضی الی المنازعۃ …ثم قال الفقیہ: والفتوی علی قولھما تیسیرا للأمرعلی الناس
وکذافی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(5/3346،رشیدیہ)
وکذافی فتح القدیر:(6/412،رشیدیہ)
وکذافی الھدایة:(3/23،رحمانیہ)
وکذافی البحر الرائق:(5/476،رشیدیہ)
وکذافی فقہ البیوع:(1/93،معارف القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
فرخ عثمان غفرلہ ولوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
17/7/1442/2021/3/3
جلد نمبر:23 فتوی نمبر: 152