سوال

ایک بندہ جس کی بیوی نے کفریہ کلمہ کہا جو کہ اس نے اپنے پورے ہوش وحواس کے ساتھ ایک معمولی بات پر کہا ،جب اس کے شوہر نے اس سے صرف ایک مشورہ کی نیت سے اس کے بھائی(بیوی کے بھائی) کے ساتھ اپنی بہن کا رشتہ کرنے کی بات کی (اور یہ بات بھی شوہرنے اپنی والدہ کے کہنے پر کی تھی) تو اس کے جواب میں بیوی نے کہا کہ میرے بھائی کےلیے تو نے خاندان میں یہی لڑکی دیکھی ہے؟اور ساتھ ہی روتے ہوئے کہنے لگی کہ آپ نے یہ بات کیوں کی؟ تو شوہر نے کہا کہ میں نے صرف ایک تجویز دی ہے ، لازمی نہیں کہ ایسا ہی ہو ،مطمئن رہو۔اس پر بھی بیوی نے کہا کہ مجھے لگتا ہےکہ اللہ نے میرے ساتھ دھوکہ کیا (معاذاللہ) ۔ شوہر نے کہا کہ ایسا مت کہو تو بھی وہ اس پر نہ رکی۔ مسئلہ کا علم اس وقت دونوں کو نہیں تھا کہ کفریہ کلمہ کی وجہ سے بندہ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے،اس وجہ سے انہوں نے تجدید ایمان اور تجدید نکاح نہ کیا ۔ کچھ عرصہ بعد کسی تنازع کی وجہ سے خاوند نے تین طلاقیں دے دیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک عالم دین سے اس مسئلہ کے بارے میں سنا تو اس کفریہ کلمہ سے متعلق پتا چلا۔ معلوم ہوا کہ نکاح سے وہ پہلے ہی خارج ہوچکی تھی،لہذا بعدوالی طلاق کی کوئی حیثیت نہ رہی۔ اس بارے میں اہلسنت والجماعت (دیوبند) کے مفتی عبید صاحب (جامعہ ابن عباس کراچی) سے واٹس ایپ پر پوچھا گیا تو صورت حال کو سمجھ کر انہوں نے بتلایا کہ وہ عورت کفریہ کلمہ کہنے کی وجہ سے ایمان سے خارج ہوگئی تھی ،لہذا نکاح بھی ختم ہوگیا تھا،اب دونوں تجدید ایمان و نکاح کرلیں، بعد والی طلاق کی تو اب کوئی حیثیت نہیں ،کیونکہ وہ کفریہ کلمہ کہنے کی وجہ سے اس کی بیوی رہی ہی نہ تھی اس لیے بعد والے معاملہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس بارے میں قرآن و حدیث سے راہنمائی فرمائیں۔

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

علماء اہلسنت والجماعت کسی بھی مسلمان پر کفر کا حکم لگانے میں ہمیشہ انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہیں اور اس کے قول و فعل کو حتی الامکان درست محمل پر محمول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
صورت مسئولہ میں عورت نے مذکورہ کلمات چونکہ جہالت اور لاعلمی کی بنیاد پر کہے ہیں ، واقعتا اللہ تعالی کی ذات سے متعلق اس طرح کے نقص کا اعتقاد نہ تھا ،اس لیے اس عورت پر کفر وارتداد کا حکم لگانے سے احتراز کیا جائے گا،لہذا اس بناء پرنکاح ختم نہیں ہوا تھا اس لیے خاوند نے جو تین طلاقیں دی ہیں وہ واقع ہوگئیں اور عورت خاوند پر حرام ہوگئی۔
تاہم عورت نے اللہ تعالی کی ذات سے متعلق نازیبا کلمات بول کر سخت کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے ،لہذا فورا توبہ و استغفار کرے اور احتیاطا تجدید ایمان بھی کرلے۔

لما فی التاتارخانیة:(7/281،فاروقیہ)
یجب أن یعلم أنہ اذاکان فی المسئلۃ وجوہ توجب التکفیر و وجہ واحد یمنع التکفیر فعلی المفتی أن یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم
وفی الفتاوی الھندیة:(2/283،رشیدیہ)
ما کان فی کونہ کفرا اختلاف فان قائلہ یؤمر بتجدید النکاح و بالتوبۃ و الرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط ….اذاکان فی المسئلۃ وجوہ توجب الکفر و وجہ واحد یمنع فعلی المفتی أن یمیل الی ذلک الوجہ
وفی فتاوی قاضیخان علی ھامش الھندیہ:(3/577،رشیدیہ)
أما الجاھل اذا تکلم بکفر و لم یدر أنہ کفر اختلفوا فیہ قال بعضھم لایکون کفرا و یعذر بالجھل و قال بعضھم یصیر کافرا و لایعذر بالجھل
وکذافی التاتارخانیہ:(7/282،فاروقیہ)
وکذافی التنویر مع الدر المختار:(6/353،رشیدیہ)
وکذافی الفتاوی السراجیہ:(304،زمزم)
وکذافی البحر الرائق:(5/210،رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب
فرخ عثمان غفرلہ ولوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
1/8/1442/2021/3/16
جلد نمبر:23 فتوی نمبر: 198

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔