الجواب حامداً ومصلیاً
علماء اہلسنت والجماعت کسی بھی مسلمان پر کفر کا حکم لگانے میں ہمیشہ انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہیں اور اس کے قول و فعل کو حتی الامکان درست محمل پر محمول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
صورت مسئولہ میں عورت نے مذکورہ کلمات چونکہ جہالت اور لاعلمی کی بنیاد پر کہے ہیں ، واقعتا اللہ تعالی کی ذات سے متعلق اس طرح کے نقص کا اعتقاد نہ تھا ،اس لیے اس عورت پر کفر وارتداد کا حکم لگانے سے احتراز کیا جائے گا،لہذا اس بناء پرنکاح ختم نہیں ہوا تھا اس لیے خاوند نے جو تین طلاقیں دی ہیں وہ واقع ہوگئیں اور عورت خاوند پر حرام ہوگئی۔
تاہم عورت نے اللہ تعالی کی ذات سے متعلق نازیبا کلمات بول کر سخت کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے ،لہذا فورا توبہ و استغفار کرے اور احتیاطا تجدید ایمان بھی کرلے۔
لما فی التاتارخانیة:(7/281،فاروقیہ)
یجب أن یعلم أنہ اذاکان فی المسئلۃ وجوہ توجب التکفیر و وجہ واحد یمنع التکفیر فعلی المفتی أن یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم
وفی الفتاوی الھندیة:(2/283،رشیدیہ)
ما کان فی کونہ کفرا اختلاف فان قائلہ یؤمر بتجدید النکاح و بالتوبۃ و الرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط ….اذاکان فی المسئلۃ وجوہ توجب الکفر و وجہ واحد یمنع فعلی المفتی أن یمیل الی ذلک الوجہ
وفی فتاوی قاضیخان علی ھامش الھندیہ:(3/577،رشیدیہ)
أما الجاھل اذا تکلم بکفر و لم یدر أنہ کفر اختلفوا فیہ قال بعضھم لایکون کفرا و یعذر بالجھل و قال بعضھم یصیر کافرا و لایعذر بالجھل
وکذافی التاتارخانیہ:(7/282،فاروقیہ)
وکذافی التنویر مع الدر المختار:(6/353،رشیدیہ)
وکذافی الفتاوی السراجیہ:(304،زمزم)
وکذافی البحر الرائق:(5/210،رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب
فرخ عثمان غفرلہ ولوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
1/8/1442/2021/3/16
جلد نمبر:23 فتوی نمبر: 198