سوال

ایک دینی مدرسہ کے مہتمم اور ناظم باپ بیٹا ہیں ۔ والد مہتمم اور بیٹے ناظم ہیں۔ مدرسہ کی عمارت میں مذکورہ بالا دونوں حضرات کےلیے ایک چھوٹا سا مکان ہے جس میں دونوں حضرات بمع اہل و عیال رہائش پذیر ہیں اور ان دونوں حضرات کے بمع اہل وعیال کھانے پینے کے اخراجات مدرسے پر ہیں۔ مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ مدرسہ میں تقریبا گیارہ مدرسین ہیں۔ کچھ اساتذہ کے گھر مدرسہ سے دور ہیں اور وہ مکمل ہفتہ مدرسہ میں رہتے ہیں اور ان کے کھانے کے علاوہ کوئی قابل ذکر سہولت مدرسہ کی طرف سے نہیں ۔ اگر کوئی مدرس مدرسہ کے قریب بمع اہل وعیال رہائش اختیار کرےتو اس مدرس کو اہل وعیال کا کھانا گھر لے جانے کی اجازت نہیں حتی کہ اپنا کھانا بھی،جبکہ مہتمم اور ناظم صاحب کا تمام تر سہولیات کے علاوہ وظیفہ بھی بقیہ مدرسین کی بنسبت تقریباً زیادہ ہے۔دوسرے اساتذہ مالی طور پر کمزور ہیں اور کچھ مدرسین گزشتہ 18، 20 سال سے تدریس کررہے ہیں اور وظیفہ 9 ہزار سے 10 ہزار تک ہے، لہذا ازروئے شرع مہتمم صاحب اور ناظم صاحب کا اساتذہ سے ایسا برتاؤ کیسا ہے؟ نیز مہتمم صاحب اور ناظم صاحب ضرورتاً ادارہ کی سہولیات لے سکتے ہیں تو ضرورت کا معیار کیا ہوگا؟ جبکہ مدرسہ کی شوریٰ بھی برائے نام ہے یعنی غیر فعال اور حالات مدرسہ سے غافل اور اہل شوری کو اختیارات بھی نہیں ،تمام تر اختیارات مہتمم صاحب کو ہیں،جبکہ مہتمم صاحب باشرع اور متقی انسان ہیں اور شریعت کی ہر بات بصدق دل تسلیم کرتے ہیں اور صاحب نسبت اور ملک کی مشہور شخصیت سے مجاز بیعت ہیں ۔ نیز مہتمم صاحب مدرسہ کے انتظامی امور بھلا وہ تعلیم کے حوالے سے ہی کیوں نہ ہوں ،مدرسین سے مشورہ بھی نہیں کرتے،حالانکہ مدرسہ کے وسائل بھی ہیں ۔ تنخواہوں میں کبھی سالانہ 500 کا اضافہ ہوتا ہے ، جبکہ ناظم صاحب کی تنخواہ میں 2500 تک کا اضافہ ہوتا ہے۔

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

وقف کے اموال درحقیقت واقفین کی امانتیں ہوتی ہیں اور منصب اہتمام پر فائز ہونے والا ان امانتوں کا امین ہوتا ہے ان اموال کے استعمال میں تھوڑی سی اونچ نیچ بھی خیانت کی حدود میں داخل کردیتی ہے ،لہذا وقف کے اموال میں تصرف کرتے وقت بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

کما فی الشامیة:(6/584،رشیدیہ)
قوله: غير مأمون إلخ) قال في الإسعاف: ولا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه لأن الولاية مقيدة بشرط النظر وليس من النظر تولية الخائن لأنه يخل بالمقصود

یہ بات بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ادارے کا بڑا اور منتظم اپنے ماتحت کام کرنے والے لوگوں کا امیر ہوتا ہے اور جائز امور میں امیر کی اطاعت لازم اور ضروری ہوتی ہے ، لہذا تمام جائز امور میں صدق دل سے مہتمم صاحب کی اطاعت کرنا اور ان سے حسن ظن رکھنا مدرسین پر لازم ہے۔

لما فی قولہ تعالی:(النساء:59 )
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
وفی التفسیر المنیر:(3/134،امیر حمزہ)
ولما أمر الله الولاة والحكام بأداء الأمانات والحكم بين الناس بالعدل، أمر الرعية بطاعته عز وجل أولا بامتثال أوامره واجتناب نواهيه، ثم بطاعة رسوله ثانيا فيما أمر به ونهى عنه، ثم بطاعة الأمراء ثالثا، لكن تجب طاعة الأمراء أو السلطان فيما فيه طاعة، ولا تجب فيما كان لله فيه معصية

باقی مراتب اور ذمہ داریوں کے مختلف ہونے سے تنخواہوں میں تفاوت تو یہ شرعا ممنوع نہیں۔ علم، تفقہ اور فضل میں مختلف مراتب کے اعتبار سے تنخواہوں میں کمی زیادتی کے جواز کی خود فقہاء نے صراحت فرمائی ہے۔

کما فی الدر المختار:(6/339،رشیدیہ)
“ويعطي بقدر الحاجة والفقه والفضل.”
وفی الشامیة:(6/339،رشیدیہ)
فله أن يعطي الأحوج أكثر من غير الأحوج، وكذا الأفقه والأفضل أكثر من غيرهما وظاهره أنه لا تراعى الحاجة في الأفقه والأفضل، وإلا فلا فائدة في ذكرهما، ويؤيده أن عمر – رضي الله تعالى عنه  كان يعطي من كان له زيادة فضيلة، من علم، أو نسب أو نحوه ذلك أكثر من غيره

البتہ کسی کی تنخواہ میں اس کے استحقاق سے کہیں بڑھ کر زیادتی، جبکہ تنخواہوں کی ادائیگی اموال وقف میں سے ہو،اسی طرح باوجود وسعت کے کسی کو اس کے استحقاق سے کم تنخواہ دینا کہ اس کی ضروریات کی بھی کفالت نہ ہو سکے ،دونوں امر قطعاً درست نہیں۔

لما فی مشکوۃ المصابیح:(1/264،رحمانیہ)
عن ابی ھریرۃ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” قال الله تعالى: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره
و فی المرقاة:(6/178،التجاریہ)
ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه) أي: ما أراد به من العمل أتى به تهجينا للأمر وزيادة للتقريع (ولم يعطه أجره) وفي رواية ابن ماجه ولم يوفه أي لم يعطه أجره وافيا
وفی الدر المختار:(6/339،رشیدیہ)
ويعطي بقدر الحاجة والفقه والفضل فإن قصر كان الله عليه حسيبا
وفی الشامیہ:(6/339،رشیدیہ)
ويجب على الإمام أن يتقي الله تعالى ويصرف إلى كل مستحق قدر حاجته من غير زيادة فإن قصر في ذلك كان الله تعالى عليه حسيبا
وفی البحر الرائق:(5/201،رشیدیہ)
ويجب على الإمام أن يتقي الله تعالى ويصرف إلى كل مستحق قدر حاجته من غير زيادة فإن قصر في ذلك كان الله تعالى عليه حسيبا

باقی رہا وقف کے اموال میں سے متولی کا ذاتی ضرورت کےلیے کچھ لینا تو اس کا مدار شریعت نے واقف کی اجازت اور عرف پر رکھا ہے، لہذا واقف جن چیزوں سے متعلق متولی کو ذاتی استعمال میں لانے کی اجازت دےدے یا عرف میں متولی کو جن چیزوں کے استعمال کی اجازت سمجھی جاتی ہو، اسی قدر اشیاء کو ذاتی استعمال میں لانے کی اجازت ہے ،اس سے زائد کا ذاتی استعمال اموال وقف میں خیانت ہوگی، لہذا مہتمم صاحب کو چاہیے کہ اپنے علاقہ کے قابل اعتماد اکابر و مشائخ اور علماء کرام کی خدمت میں اپنی ذمہ داریوں و ضرورتوں کی تفصیل پیش کرکے مشاورت سے وظیفہ و سہولیات طے کروا لیں پھر اس کی پابندی کریں۔

لما فی البحر الرائق:(5/419،رشیدیہ)
بعث شمعا في شهر رمضان إلى مسجد فاحترق وبقي منه ثلثه أو دونه ليس للإمام ولا للمؤذن أن يأخذ بغير إذن الدافع ولو كان العرف في ذلك الموضع أن الإمام والمؤذن يأخذه من غير صريح الإذن في ذلك فله ذلك

مدرسہ کے اہم انتظامی اور تعلیمی امور باہم مشورہ سے ہی طے پانے چاہییں۔ خود قرآن کریم میں اہل ایمان کی اس نمایاں صفت کو بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے

أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُم” [الشورى: 38]

اسی طرح خود رحمت دو عالم ﷺ باوجود کامل العقل اور اعلم الناس ہونے کے، اپنے صحابہ کرام سے مختلف امور میں مشورہ فرمایا کرتے تھے۔
باہم مشورہ سے امور کا سر انجام دینا خیروبرکت کا ذرریعہ ہوتا ہے ۔اگر اس کا اہتمام کرلیا جائے تو یقیناً اس سے باہم اتحاد کی فضا قائم ہوگی اور آپس میں انسیت و محبت کا ماحول پیدا ہوگا، رنجشیں اور دوریاں ختم ہوں گی۔

لما فی التفسیر المنیر:(13/87،امیرحمزہ)
وإذا كانت الآية هنا تقرر وصفا ثابتا للمؤمنين، فقد أمر الله تعالى بالشورى في آية أخرى، فقال: وَشاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ وقال الحسن البصري رحمه الله: «ما تشاور قوم إلا هدوا لأرشد أمورهم»وقال ابن العربي : الشورى ألفة للجماعة، ومسبار للعقول، وسبب إلى الصواب، وما تشاور قوم إلا هدوا

واللہ اعلم بالصواب
فرخ عثمان غفرلہ ولوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
1/8/1442/2021/3/16
جلد نمبر:24 فتوی نمبر:4

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔