الجواب حامداً ومصلیاً
عام طور پرایسی قسم اٹھانے والااپنے آپ کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے یقینی اور قطعی طورپر روکنا چاہتے ہوتے ہیں،ان کی نیت العیاذباللہ کفر میں داخل ہونے کی نہیں ہوتی،اس لئے ایسی قسم اٹھانے والاقسم ٹوٹنے کے باوجودکافر نہ ہوگا۔
وکذا فی بدائع الصنائع:(3/16،رشیدیة)
ولوقال ان فعل کذا فھو یہودی أونصرانی أومجوسی أوبرئ من الاسلام أویعبدمن دون اللہ أویعبدالصلیب اونحو ذٰلک مما یکون اعتقادہ کفرا فھویمین
وکذا فی الفقہ الاسلامی وادلتہ:(4/2468،رشیدیة)
اذاحلف انسان بالخروج من الاسلام مثل ان یقول:ان فعلت کذا فھو یہودی اونصرانی اومجوسی أوبرئ من الاسلام أومن رسول اللہ أومن القرآن أوکافرا أویعبدمن دون اللہ أویعبدالصلیب اونحوہ ذٰلک ممایکون اعتقادہ کفرافھٰذامااخلتف فیہ فقھاؤنافقال الحنفیۃ وفی روایۃ عن احمد:یکون یمیناموجبۃ للکفارۃ اذافعل الشئ المحلوف علیہ
وکذافی الھندیة:(2/54،رشیدیة)
وکذافی الدرالمختار:(3/713،سعید)
وکذا فی المحیط البرھانی:(6/68،دار احیاء)
وکذا فی المبسوط:(8/134 ،دار المعرفة)
وکذا فی البحرالرائق:(4/480،رشیدیة)
وکذا فی خلاصةالفتاوی:(2/127،رشیدیة)
وکذا فی الفتاوی التاتارخانیة:(6/17،فاروقیة)
واللہ اعلم بالصواب
عبدالقدوس بن خیرالرحمٰن
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
8/7 /1442/2021/3/22
جلد نمبر:24 فتوی نمبر:99