الجواب حامداً ومصلیاً
اگر کوئی اپنی زندگی میں کسی کو اپنی جائیداد میں سے کچھ دیتا ہے تو اس کو تبرع واحسان شمار کیا جائیگا نہ کہ میراث،اس لیے کہ میراث کسی کے مرنے ے بعد اس کے چھوڑے ہوئے مال کو کہتے ہیں ،لہذاصورت مسئولہ میں بڑے بیتے کوباپ کی وفات کے بعد اس کی وراثت میں سے دوسرے ورثاء کے ساتھ برابر حصہ ملے گا،چھوٹا بیٹا جو باپ کی زمین میں کاشت کاری کرتا رہا تو اسے باپ کا معاون شمار کیا جائے گااور تمام زمین والد کی ہی ہوگی،البتہ والد کو چاہیئے کہ چھوٹے بیتے کو بھی بڑے بیتے کے کاروبار کے بقدر جائیداد یا رقم وغیرہ اپنی زندگی میں ہی دے دے تاکہ برابری ہوسکے
لما فی الھندیة : ( 1/ 396 ،رشیدیہ )
ولودفع الی ابنہ مالا فتصرف فیہ الابن یکون للاب اذا دلت دلالة علی التملیک کذا فی الملتقط رجل دفع الی ابنہ فی صحتھا لایتصرف فیہ ففعک وکثرذلک فمات الاب ان اعطاہ ھبة فالکل لہ وان دفع الیہ لان یعمل فیہ للاب فھو میراث
وفی الفقہ الاسلامی وادلتہ: ( 3/4013 ، رشیدیہ)
اما عن حکم التسویۃ فی العطیۃ فقال جمھورالعلماء لا تجب التسویۃ بل تندب ،فان فضل بعض الورثۃ صح وکرہ،وحملواالامر بالتسویۃ فی الاحادیث علی الندب،لان الانسان حرالتصرف بمالہ لوارث او غیرہ
وکذافی الشامیة: (4 /325 ،سعید )
وکذا فی الفقہ الحنفی : (5 /52 ،طارق )
وکذافی شرح المجلة: (4 /319 ،رشیدیہ )
وکذا فی التاتارخانیة: (14 /462 ،فاروقیہ )
وکذافی البحرالرائق: ( 7/490 ،رشیدیہ )
وکذا فی المحیط البرھانی: (9 /209 ،داراحیاء )
واللہ اعلم بالصواب
احتشام مجیدغفرلہ ولوا لدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
25/2/2023/4/8/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:94