الجواب حامداً ومصلیاً
ہر انسان کے پاس اس کے تمام اعضاء امانت ہیں ان کے مالک اللہ تعالی ہیں، لہٰذا کسی بھی انسانی عضو کی کسی دوسرےشخص کے لئے وصیت کرنا درست نہیں ہے۔
لما فی الدرالمختار:(19/356،رشیدیہ)
کون الموصی بہ قابلا للتملیک بعد موت الموصی بعقد من العقودمالااونفعا موجوداللحال اومعدوما
وفی الانتفاع باجزاء الآدمی لم یجز قیل للنجاسۃ
وفی الہندیہ:(5/354،رشیدیہ)
وفی الانتفاع باجزاء الآدمی لم یجز قیل للنجاسۃ قیل للکرامۃ ہو الصحیح قال ابو حنیفۃ رحمہ اللہ ولا ینتفع بجلدہ ولا غیرہا الا الشعر للاساکفۃ وقال ابو یوسف رحمہ اللہ یکرہ الانتفاع ایضا با لشعر وقول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ اظہر
وکذافی البحرالرائق:(6/133،رشیدیہ)
وکذافی الکفایہ فی فتح القدیر:(6/90،رشیدیہ)
وکذافی الہدایہ:(3/58،رشیدیہ)
وکذافی النہر الفائق:(3/428،قدیمی)
واللہ اعلم بالصواب
محمداسامہ شفیق عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
11/5/1442/2020/12/27
جلد نمبر:22 فتوی نمبر:123