الجواب حامداً ومصلیاً
اگر بلغم غالب ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گااور اگر خون غالب ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا۔خون کے غالب ہونے کی صورت یہ ہے کہ بلغم سرخی مائل ہو جائے۔بلغم کے زرد ہونے کی صورت میں وضو نہیں ٹوٹے گا۔
لما فی المبسوط: (1 / 290 ،دار المعرفہ )
فان بزق فخرج من بزاقہ دمٌ فان کان البزاق ھو الغالب فلاوضوء علیہ،وان کان الدم ھو الغالب فعلیہ الوضوء
وفی الھدایہ مع العنایہ: ( 1/ 47، رشیدیہ)
اذا قاء مرۃ او طعاما او ماء، فان قاء بلغماً فغیر ناقض) یعنی صرفاً لا یشوبہ طعام،َ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولم یذکر ما اذااختلط البلغم بالطعام،قالوا یعتبر فیہ الغلبۃ،فان کان الطعام غالباً نقض کالدم والا فلا
وفی تنویر الابصار مع رد المحتار: (1 / 291 ، رشیدیہ)
غلب علیٰ بزاقٍ (وعلامۃ کون الدم غالباً او مساویاً ان یکون البزاق احمر ،وعلامۃ کونہ مغلوباً ان یکون اصفر
وکذا فی الفتاوی الھندیہ: ( 1/ 11،رشیدیہ )
وکذا فی تنویر الابصار مع الدرالمختار: ( 1/290،رشیدیہ )
وکذا فی الفتاوی التاتارخانیہ: ( 1/249،فاروقیہ)
و کذا فی کنز الدقائق مع تبیین الحقائق: ( 1/9،امدادیہ)
و کذا فی خلاصہ الفتاوی مع مجموع الفتاوی: ( 1/15،رشیدیہ)
و کذا فی الھدایہ مع البنایہ: ( 1/215،رشیدیہ)
و کذا فی بدائع الصنائع: ( 1/124،رشیدیہ)
و کذا فی الفتاوی الھندیہ: ( 1/11،رشیدیہ)
و کذا فی المحیط البرھانی: ( 1/204،دار احیاء ترات العربی)
واللہ اعلم بالصواب
محمد مجیب الرحمٰن
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2020/10/4/7/3/1444
جلد نمبر:28 فتوی نمبر:45