سوال

ایک مسجد جہاں باجماعت نماز کی ادائیگی ہوتی ہے عرصہ تقریبا پچاس سال سے قائم ہے اورکل رقبہ دس مرلے پر محیط ہے،جس میں ساڑھےسات مرلے کاغذی طور پر وقف ہے، جبکہ بقیہ حصہ بانی مسجد نےچاہ کو جانے والے راستے کو مسجد میں شامل کردیا تھا ،کیونکہ چاہ ختم ہو چکا تھا۔اب جبکہ مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ ہےتو چاہ مذکورہ کے حصہ داران کا مطالبہ ہےکہ مسجد کا وہ حصہ جو دراصل چاہ کا راستہ تھا اس کو بطور راستے کے خالی چھوڑ دیا جائے اور مسجد کو بقیہ حصے تک محدود رکھا جائے۔سوال یہ کہ چونکہ مسجد راستے پر تعمیر کی گئی تھی تو اب حصہ داران کے مطالبے کے مطابق راستے کو چھوڑ دیا جائے تو اہل محلہ گناہ گار تو نہیں ہونگے ؟کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جس جگہ ایک بار مسجد قائم ہو جائے اسے تبدیل یا ختم نہیں کیا جا سکتا ،وہ قیامت تک مسجد بن جاتی ہے، یا حصہ دران کی رائے کے مطابق راستے والے حصے پر مسجد قائم کرنا خلاف شرع ہے، لہذا اس حصے کو چھوڑ کرباقی رقبے پر مسجد تعمیر کی جائے؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

صورت مسئولہ میں جو حصہ مسجد کا ہے اس پر تو مسجد بنائی جائے اور جو حصہ چاہ کا ہے اہل محلہ کے اعتراض کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیا جائےاور اس راستے کو مسجد میں داخل نہ کیا جائے۔

لما فی الھندیة:(2/456،رشیدیہ)
قوم بنوا مسجدا واحتاجو الی مکان لیتسع المسجد وأخذوا من الطریق وأدخلوہ فی المسجد ان کان یضر بأصحاب الطریق لا یجوز وان کان لا یضر بھم رجوت أن لا یکون بہ بأس
وفی تنویر الابصار مع الدر المختار ور د المحتار:(6/578،رشیدیہ)
جعل شیء )أی : جعل البانی شیأ( من الطریق مسجدا) لضیقہ ولم یضر بالمارین (جاز) لانھا للمسلمین قولہ : ( لضیقہ ولم یضر بالمارین ) أقاد أن الجواز مقید بھذین الشرطین:قولہ (جاز) ظاھرہ:أنہ یصیر لہ حکم المسجد الذی یتخذ من جانب الطریق لا یکون لہ حکم المسجد بل ھو طریق بدلیل أنہ رفع حوائطہ عاد طریقا کما کان قبلہ
وکذافی الفتح الباری:(1/742،قدیمی) وکذافی عمدة القاری:(4/255،بیروت)
وکذافی البحر الرائق :(5/428،رشیدیہ) وکذافی الفتاوی التاتارخانیة:(8/158،فاورقیہ)
وکذافی تبیین الحقائق:(3/331،امدادیہ) وکذافی الفقہ الحنفی:(2/375،الطارق)
وکذافی النھر الفائق:(3/332،قدیمی) وکذافی خلاصة الفتاوی:(4/421،رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب
ضیاء الرحمان غفرلہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
10/2/2023/18/7/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:37

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔