الجواب حامداً ومصلیاً
صورت مسئولہ میں ہزار روپے کے بڑے نوٹوں کی مالیت ختم ہو چکی ہے،یہ نوٹ عام اشیاء کے حکم میں ہو گئے ہیں ،لہذا اب ہزار روپے کے بڑے نوٹ کو پانچ سو میں بیچنا جائز ہے۔
لما فی الشامیة:(7/567،رشیدیہ)
تعین بہ)أی:بالتعیین لان ھذہ الدراھم فی الاصل سلعۃ وانما صارت أثمانا بالاصطلاح،فاذا ترکوا المعاملۃ بھا رجعت الی اصلھا
وفی فقہ البیوع:(2/733،معارف القرآن)
و حجۃ ھذا القول أن ھناک فرقا کبیرا بین الذھب و الفضۃ و بین النقود الورقیۃ من حیث ان الذھب و الفضۃ تعتبر أثمانا منذ اول نشأتھا حتی الآن، ولذلک قیل: انھا أثمان خلقیۃ، وان صفۃ الثمنیۃ فیھا لا تبطل بالعرف و لاصطلاح أما النقود الورقیۃ فانھا صارت أثمانا بالاطلاح وثمنیتھا لیست دائمۃ فیمکن فی أی حین أن تبطل ثمنیتھا بمحض إصدار حکم من الحکومۃ أنھا لم تعد عملۃ قانونیۃ
وکذافی الموسوعة الفقہیة:(15/30،علوم اسلامیہ)
وکذافی البحرالرائق:(6/335،رشیدیہ)
وکذافی الفاوی التاتارخانیة:(10/4،فاروقیہ)
وکذافی تکملة فتح الملھم:(1/588،دار العلوم کراچی)
وکذافی بحوث فی قضایا فقھیة معاصرة:(1/161،دار العلوم کراچی)
وکذافی الھدایة:(3/115،رحمانیہ)
وکذافی تیین الحقائق:(4/141،امدادیہ)
وکذافی مجع الانھر:(3/168،المنار)
واللہ اعلم بالصواب
ضیاء الرحمان عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
22/2/2023/1/3/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:64