سوال

جھینگا کھانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

بعض فقہاء نے چونکہ جھینگے کو مچھلی کی قسم شمار نہیں کیا اس لیے ان کے نزدیک اسے کھانا درست نہیں ہے، جبکہ بعض فقہاء نے اسے مچھلی کی قسم شمار کر کے حلال قرار دیا ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے جھینگے کی حلت و حرمت کے سلسلہ میں تشدد سے کام نہیں لینا چاہیے۔ تلخیص از تکملہ فتح الملہم:(3/513،دارالعلوم)

لما فی تکملة فتح الملہم:(3/513،دارالعلوم کراچی)
واما الروبیان او الاربیان الذی یسمی فی اللغۃ المصریۃ ”جمبری“ ، و فی اللغۃ الاردیۃ ” جھینگا “ ۔۔۔۔ فلا شک فی حلتہ عند الائمۃ الثلاثۃ، لان جمیع حیوانات البحر حلال عندھم۔ واما عند الحنیفۃ ، فیتوقف جوازہ علی انہ سمک او لا۔ فذکر غیر واحد من اھل اللغۃ انہ نوع من السمک، قال ابن درید فی جمھرۃ اللغۃ 3:414: ((واربیان ضرب من السمک))، واقرہ فی القاموس و تاج العروس 1 :146 ، و کذالک قال الدمیری فی حیاۃ الحیوان 1 :473: (( الروبیان ھو سمک صغیر جدا احمر )) و افتی غیر واحد من الحنفیۃ بجوازہ بناء علی ذالک، مثل صاحب الفتاوی الحمادیۃ ۔۔۔۔۔۔ وقد اسلفنا ان اھل اللغۃ امثال ابن درید، والفیروزابادی، والزبیدی، والدمیری کلھم ذکروا انہ سمک۔ فمن اخذ بحقیۃ الاربیان حسب علم الحیوان قال بمنع اکلہ عند الحنفیۃ، ومن اخذ بعرف اھل العرب قال بجوازہ، وربما یرجع ھذا القول بان المعہود من الشریعۃ فی امثال ھذہ المسائل الرجوع الی العرف المتفاھم بین الناس، دون التدقیق فی الابحاث النظریۃ، فلا ینبغی التشدید فی مسئلۃ الاربیان عند الافتاء، ولا سیما فی حالۃ کون المسئلۃ مجتھدا فیھا من اصلھا، ولا شک انہ حلال عند الائمۃ الثلاثۃ، وان اختلاف الفقہاء یورث التخفیف کما تقرر فی محلہ، غیر ان الاجتناب عن اکلہ احوط و اولیٰ و احری

واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
سید ممتاز شاہ بخاری
18/12/2022/23/5/1444
جلد نمبر:28 فتوی نمبر:140

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔