الجواب حامداً ومصلیاً
شریعت مطہرہ میں چونکہ نمازوں کے اوقات متعین ہیں،جیسا کہ قرآن کریم میں ہے”إِنَّ الصَّلَاۃكَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِین كِتَابًا مَوْقُوتًا(سورت النساء/ 103) ترجمہ: بیشک نماز مسلمانوں کے ذمے ایک ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے۔اور رسول اللہ نے بھی ایک وقت میں دو نمازوں کے جمع کرنے کو گناہ قرار دیا ہے۔سوال میں موجود حدیث بھی حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ سے مروی ہے اور ایک دوسری حدیث بھی حضرت ابنِ عباسؓ ہی کی حدیث ہے۔ترجمہ:رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص بغیر عذر کے دو نمازوں کو جمع کرے تو وہ گناہ کبیرہ کے دروازوں میں سے ایک دروازے کے پاس آیا۔(جامع ترمذی:1/145،رحمانیہ)پس اگر حدیث ابنِ عباسؓ کو اپنے ظاہری معنی پر محمول کیا جائے،تو یہ مندرجہ بالا حدیث کے خلاف اور متعارض ہو جائے گی،لہذا حدیث ابنِ عباسؓ کا ایسا معنی بیان کیا جائے گاجو ان اصولوں کے خلاف نہ ہو،مزید یہ کہ خود حضرت ابنِ عباسؓ سے بھی منقول ہے کہ میں نے رسول اللہ کے ساتھ ظہر اور عصر،اور مغرب اور عشاء کی نماز اکٹھے پڑھی،اس حال میں کہ رسول اللہ نے ظہر کی نماز ظہر کے بالکل آخری وقت میں اورعصر کو عصر کے بالکل ابتدائی وقت میں پڑھا اور مغرب کی نماز کو آخری وقت میں اور عشاء کی نماز کو جلدی پڑھا(نیل الاوطار:3/246،دار الباز )اسی وجہ سے محدثین حضرات نے اسکو “جمع صوری” پر محمول کیا ہے۔یعنی ظہر کو بالکل آخری وقت میں اور عصر کو عصرکے بالکل ابتدائی وقت میں پڑھا جائےاور یہی صورت مغرب اور عشاء کی ہے،لہذا اس طرح دونوں حدیثوں پر عمل بھی ہو جاتاہے اور حدیث کا مرادی معنی بھی معلوم ہو جاتا ہے اورکسی حدیث کا انکار یا اس کا ترک کرنا بھی لازم نہیں آتا۔
لما فی جامع الترمذی:(1/145،مکتبہ رحمانیہ)
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال من جمع بین الصلو تین من غیر عذر فقد اتیٰ بابا من ابواب الکبائر
وفی صحیح التر مذی مع عارضةالاحوذی: (1/303،دار احیاءالتراث)
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم قال من جمع بین الصلو تین من غیر عذر فقد اتیٰ بابا من ابواب الکبائر،قال علماءنا الجمع بین الصلوتین فی المطر والمرض رخصۃ وقال أبو حنیفۃ بدعۃ،وباب من أبواب الکبائر کما تقدم فی الحدیث وفیہ اخراج الصلاةعن أوقاتھا التی تثبت لھا ثبوتا متواترا وانما یکون الجمع بعرفۃ حیث نقل تواترا فیکون النسخ للشئ بمثلہ لا بما ھو أقل منہ
وفی حاشیة اعلاءالسنن: (2 /95،ادارة القرآن)
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم الظہر والعصر جمیعاً بالمدینۃ فی غیر خوفٍ ولا مطرٍ۔۔۔۔۔۔ قلت،وقد روی ھذا عن الاعمش وھو ثقۃ،فھو محمول علی الجمع الصوری،وحملہ علی الجمع الحقیقی خلاف الجماع
وکذا فی عمد ةالقاری: (5 /30،داراحیاء التراث)
وکذافی فتح الباری: (2 /30،قدیمی کتب خانہ)
وکذافی فیض الباری:(2/148، رشیدیہ)
وکذافی بدائع الصنائع:(1/327،رشیدیہ)
وکذافی جامع الترمذی مع تحفة الاحوذی:(1/583،قدیمی کتب خانہ)
وکذا فی المحیط البرھانی:(2/9،دار احیاء التراث)
وکذافی آثار السنن :(244،رحمانیہ)
وکذا فی سنن النسائی مع حاشیة الامام السندی:(1/112،رحمانیہ)
وکذا فی البخاری :(1/228، قدیمی کتب خانہ)
وکذا فی القرآن الکریم:(نسآء/103)
وکذافی نیل الاوطار: (3 /246،دار الباز مکة المکرمة)
واللہ اعلم بالصواب
محمد مجیب الرحمٰن
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2023/2/8/16/7/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:18