الجواب حامداومصلیا
کسی جگہ کے دارالحرب ہونے کےلیےفقہائے کرام نے بنیادی طور پر تین شرطیں ذکر فرمائی ہیں۔1۔ وہاں صرف کفارومشرکین کے احکام جاری ہوتے ہوں۔2۔ اس میں رہنے والے مسلمانوں یا ذمیوں کو پہلے جو امان حاصل تھی ،اب وہ امان باقی نہ رہے۔3۔ وہ ملک دار الکفر کے ساتھ متصل ہوجائے۔
یہ آخری شرط بظاہر انتظامی معلوم ہوتی ہےاوراس زمانے کے اعتبار سے تھی اب اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے،جیساکہ مولانا سیف اللہ رحمانی صاحب نے ذکر فرمایا کہ
رہ گیا دار الاسلام سے متصل ہونا جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ یہ ایسی شرط ہے جو اس زمانہ کے خاص تناظروحالات میں رکھی گئی تھی موجودہ حالات میں جب کہ عالم اسلام کو فوجی اور عسکری بالادستی حاصل نہیں،یہ شرظ قابل عمل نہیں رہی ہے۔
جدید مسائل :(4/46)
لما فی البدائع:(6/112،رشیدیہ)
قال ابو حنیفۃ:انھا لا تصیر دارالکفر الا بثلاث شرائط :أحدھا :ظھور احکام الکفر فیھا۔ولثانی :ان تکون متاخمۃ لدارالکفر۔والثالث:ان لا یبقی فیھا مسلم ولا ذمی ا ٰمنابالامان الاول،وھوامان المسلمین۔
وکذا فی الھندیہ:(2/232،رشیدیہ)
انماتصیر دارالاسلام دارالحرب عند أبی حنیفۃبشروط ثلاثۃ أحدھا:أجراءاحکام الکفارعلی سبیل الاشتہار وأن لا یحکم فیھا بحکم الاسلام ۔والثانی: أن تکون متصلۃ بدار الحرب لا یتخلل بینھما بلد من بلاد الاسلام۔ والثالث: أن لا یبقی فیھامومن ولا ذمی اٰمنا بامانہ الاول الذی کان ثابتا قبل استیلاء الکفار للمسلم باسلامہ وللذمی بعقد الذمۃ
وکذا فی الشامیة:(6/276،رشیدیہ)
وکذا فی الفقہ الحنفی:(3/70،الطارق)
وکذا فی المحیط البرہانی:(7/242،دار احیا)
وکذا فی التاتارخانیة:(7/132،فاروقیہ)
وکذا فی الموسوعة الفقہیة:(20/202،علوم اسلامیہ)
وکذا فی المبسوط:(10/114،دارالمعرفہ)
وکذا فی القول الراجح:(1/488،حقانیہ)
وکذا فی الدر المنتقی:(2/455،المنار)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ محمد انیس غفر لہ ولوالدیہ
متخصص جامعۃالحسن ساہیوال
23-4-1443/21-11-29
جلد نمبر:25 فتوی نمبر:146