سوال

زید نے بکر کو جانور خرید کر پالنے کے لئے دیا،جس کی قیمت ساٹھ ہزار تھی، اور ساتھ یہ شرط لگا دی کہ اسکوفروخت کرکے ساٹھ ہزار پر جو نفع آئے گا،وہ نصف نصف تقسیم کیا جائے گا۔کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اگرنہیں تو اسکی جائز صورت کیا ہو گی؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

جانور ادھیے پر دینے کی مختلف صورتیں معاشرے میں رائج ہیں ان میں سے ایک صورت سوال میں بھی مذکور ہے۔ حنفی فقہاءکرام نے ان جیسی صورتوں کو نا جائز قرار دیا ہے۔اور جواز کا یہ حیلہ ذکر فرمایا ہے کہ مالک آدھا جانور دوسرے کو ہبہ کر دے یا آدھا فروخت کر کے قیمت معاف کر دے۔اس طرح دونوں اس کے نفع ونقصان میں شریک ہو جائیں گے۔اس لئے اول تو اس طرح کا کاروبار کرنے والے شخص کو یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔اور ناجائز صورتوں سے بچنا چاہئے،لیکن اگر اس طریقے پر عمل کرنا ممکن نہ ہویا بہت مشکل اور دشواری کا سامنا ہو تو بوقت مجبوری اپنا مسلک چھوڑ کر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کے مسلک پر عمل کرتے ہوئے مروجہ صورتوں کے مطابق اَدھیارا کرنے کی گنجائش ہے۔جیسا کہ حکیم الامت،حضرت اقدس،مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اور نامور فقیہ، حضرت اقدس مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کا بھی اسی طرف رجحان ہے۔ جس کے لئے امداد الفتاوی(3/342،دار العلوم) اور جدید فقہی مسائل(1/275،زمزم)ملاحظہ کی جائے۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں۔

کتب الیٰ بعضِ الاصحاب من فتاوی ابن ِ تیمیہ کتاب الاختیارات مانصہ ولو دفع دابتہ أو نخلہ الیٰ من یقوم لہ، الہ جزء من نمائہ صح وھو روایۃ عن أحمد

پس حنفیہ کے قواعد پر تو یہ عقد نا جائز ہے ۔کما نقل فی السوال عن عالمگیریۃ،لیکن بنا بر نقل بعض اصحاب امام احمدرحمہ اللہ کے نزدیک اس میں جواز کی گنجائش ہے۔پس تحرز احوط ہے اور جہاں ابتلاءشدید ہو توسع کیا جا سکتا ہے۔
اور ہندوستان کے نامور فقیہ ،حضرتِ اقدس مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں
“آج کل مویشیوں میں بٹائی پر لین دین اور ادھیا پر دینے کا عام رواج ہے،فقہاء حنابلہ کے یہاں اسکی اجازت ہے،احناف نے اسکو نا جائز قرار دیا ہے۔البتہ یہ حیلہ بتایا ہے کہ اسکا آدھا حصہ پرورش کرنے والے کے ہاتھ فروخت کر دے اورپھر اسکو قیمت سے بری الذمہ کردے،اس طرح جانور میں دونوں کی شرکت ہو جائے گی اور اس سے حاصل ہونے والے منافع دودھ اور بچوں میں دونوں شریک ہو جائیں گے۔

والحیلۃ فی جوازہ ان یبیع نصف البقرۃ منہ بثمنٍ ویبرئہ عنہ ثم ما یامر باتخاذاللبن والمصل فیکون بینھما وکذا لو دفع الدجاج علیٰ ان یکون البیض بینھما

راقم الحروف کا خیال ہے کہ اس تکلف کے بجائے موجود زمانے میں عرف ورواج کی بنیاد پر حنابلہ کا نقطہ نظر اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔

لما فی فتاوی الھندیة:(4/446،رشیدیہ)
والحیلۃ فی جوازہ ان یبیع نصف البقرۃ منہ بثمن ،ویبرئہ عنہ ثم یامر باتخاذ اللبن والمصل فیکون بینھما
وفی المحیط البرھانی:(12/97،دار احیاء التراث)
والحیلۃ فی جنس ھذہ المسائل ان یبیع صاحب البیضۃ نصف البیضۃ،وصاحب الدجاجۃ والبقرۃ نصف الدجاجۃ والبقرۃ من المدفوع الیہ ویبرئہ عن ثمنہ ،اشتریٰ فیکون بینھما

واللہ اعلم بالصواب
محمد مجیب الرحمٰن
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2023/2/8/16/7/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:17

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔