الجواب حامداً ومصلیاً
فقہ حنفی کی عام کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ سادات کو زکوۃ دینا درست نہیں ہے۔ یہی ظاھرالروایہ ہے، اس لیے بہتر تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سادات کی قرابت کا خیال رکھتے ہوئے پورے ادب و احترام کے ساتھ دیگر مدات(ھدایا وغیرہ) سے ان کی مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ لیکن بیت المال کے نہ ہونے اور سادات کو بیت المال سے وہ شرعی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے اگر کوئی سید بہت تنگ دست ہو اور کسی دوسری مد سے بھی اعانت ممکن نہ ہو تو فی زمانہ سادات کو زکوۃ کی رقم دینے میں بظاہر کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے، جیسا کہ ہندستان کے مشہور عالم دین حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب بھی جدید فقہی مسائل میں تفصیلی بحث کرنے کے بعد بطور ِخلاصہ لکھتے ہیں:
اگر کسی دوسری مد سے اعانت کی گنجائش نہ ہو،بالواسطہ زکوۃ سے مدد پہنچانی بھی دشوار ہو اور وہ ضرورت مند ہوں تو موجودہ حالات میں سادات کو زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے،جیسا کہ امام ابوحنیفہ ،قاضی ابو یوسف، امام طحاوی علامہ ابہری مالکی، اصطخری شافعی، امام رازی، علامہ ابن تیمیہ، اور ایک قول کے مطابق امام مالک اور اکابر علماہند میں علامہ انورشاہ کشمیری کی رائے ہے۔
لما فی شرح معانی الآثار للامام الطحاوی:(1/303،رحمانیہ)
وقد اختلف عن ابی حنیفۃ فی ذلک فروی عنہ انہ قال لا با س بالصدقات کلھا علی بنی ھاشم وذھب فی ذلک عندنا الی ان الصدقات انما کانت حرمت علیھم من اجل ما جعل لھم فی الخمس من سھم ذوی القربی فلما انقطع ذلک عنھم ورجع الی غیرھم بموت رسول اللہ ﷺ حل لھم بذلک ماقد کان محرما علیھم من اجل ماقد کان احل لھم
وفی فیض الباری: (3/157 ،رشیدیہ)
ونقل الطحاوی عن (( امالی ابی یوسف )):انہ جاز دفع الزکاۃ الی آل النبی ﷺ عند فقد ان الخمس فان فی الخمس حقھم ، فاذالم یوجد، صح صرفھا الیھم وفی البحر عن محمد بن شجاع الثلجی عن ابی حنیفۃ ایضا جوازہ۔ وفی عقد الجید ان الرازی ایضا افتی بجوازہ۔ قلت: واخذ الزکاۃ عندی اسھل من السؤال، فافتی بہ ایضا۔ نقل العینی عن الاصطرخی ایضا: انھم منعوا الخمس جاز صرف الزکاۃ الیھم وروی ابو عصمۃ عن ابی حنیفۃ جوازدفعھا الی الھاشمی فی زمانہ
وکذافی مجمع الانھر:(1/331،المنار)( وکذافی العرف الشذی: (1 /260 ،رحمانیہ)
وکذافی حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح:(721،قدیمی)
واللہ اعلم بالصواب
سید ممتاز شاہ بخاری
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2023/04/2/11/9/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:169