الجواب حامداً ومصلیاً
پہلے زمانے میں لوگ”حمام“میں نہاتے تھے ،اس میں پردے کا انتظا م نہیں ہوتاتھا،بغیر چادر لوگوں کے سامنے ستر ظاہر ہوتاتھا،اس طرح نہانے والے کی گوہی یقینا معتبر نہ تھی،لیکن آج کل غسل خانے میں مکمل پردے انتظا م ہوتا ہے ،،لہٰذا بغیر چادربھی نہانا جائز ہے،اس سے گواہی غیر معتبر نہیں ہوتی ۔
وکذا فی حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح:(106،قدیمی)
وآداب الاغتسال هي”مثل آداب الوضوءوقدبیناھا إلا أنہ لا یستقبل القبلۃ حال اغتسالہ لأنہ یکون غالبا مع كشف العورۃ فإن كان مستورا فلا بأس بہ ویستحب أن لا یتکلم بكلام معہ ولو دعاء لأنہ فی مصب الأقذار ویکرہ مع كشف العورۃ ویستحب أن یغتسل بمكان لا یراہأحد لایحل لہ النظر لعورتہ لاحتمال ظھورھافی حال الغسل أو لبس الثیاب لقولہ صلى اللہ علیہ وسلم:”إن اللہ تعالى حیی ستیر یحب الحیاء والستر فإذا اغتسل أحدكم فلیستتر” رواه أبو داود وقال العلامۃاحمدبن محمد بن اسمٰعیل الطحاوی
قولہ:”ویکرہ مع كشف العورۃ” ولو فی مكان لا یراہ فیہ احد۔۔۔وقیل یجوز أن یتجردللغسل وحدہ اعلم أنہ ذكر فی القنیۃ اختلافا فی جواز الكشف فی الخلوۃ فقال: تجرد فی بیت الحمام الصغیر لقصر إزارہ أو حلق عانتہ یأثم وقیل یجوز فی المدۃ الیسیرۃ وقیل لا بأس بہ
وکذا فی غنیة المتملی فی شرح منیة المصلی:(51، رشیدیة)
وان لا یستقبل القبلۃ وقت الغسل ان کانت عورتہ مکشوفۃ وان کان مستورۃ فلا بأس بہ۔۔۔۔وان یغتسل فی موضع لایراہ احد لاحتمال بدو العورۃ حال الاغتسال۔۔۔۔ان النبیﷺقال ان اللہ حی ستیر یحب الحیاء والسترفاذااغتسل احدکم فلیستتر۔۔۔بل ذکر فی جوازکشف العورۃ فی الخلوۃ فی القنیۃ اختلافافقال تجرد فی بیت الحمام الصغیرلعصر ازارہ اولحلق العانۃ یأثم وقیل یجوز فی المدۃ الیسیرۃ وقیل لا بأس بہ وقیل یجوز أن یتجرد للغسل
وکذافی التنویر مع الدر:(1/156سعید)
وکذا فی البحر الرائق:(1/97،رشیدیة)
وکذا فی المحیط البرھانی:(1/284،دار احیاء)
وکذا فی بدائع الصنائع:(5/404، رشیدیة)
وکذافی الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید:(1/108،الطارق)
واللہ اعلم بالصواب
عبدالقدوس بن خیرالرحمٰن
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
3/7/1442/2021/3/18
جلد نمبر:24 فتوی نمبر:71