الجواب حامداً ومصلیاً
آپکے سوالات کے جوابات بالترتیب ذکر کیے جاتے ہیں
نمبر1۔(1) عقیدہ حیات انبیاء کرام علیہم السلام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں حضرت شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اس عقیدہ کو بہت واضح اور آسان انداز میں بیان فرمایا ہے۔ یہاں حضرت کے الفاظ کو بعینہ نقل کیا جاتا ہے۔
”انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سمیت تمام مخلوقات کو موت آتی ہے، البتہ موت کے بعد ہر انسان کو برزخی زندگی سے واسطہ پڑتا ہے۔ برزخی زندگی کا مطلب صرف یہ ہے کہ انسان کی روح کا اس کے جسم سے کسی قدر تعلق رہتا ہے۔ یہ تعلق عام انسانوں میں بھی ہوتا ہے مگر اتنا کم کہ اس کے اثرات محسوس نہیں ہوتے۔ شہداء کی ارواح کا تعلق ان کے جسم سے عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے اس لئے قرآن کریم نے انہیں احیاء قرار دیا ہے اور احادیث کی رو سے ان کا جسم محفوظ رہتا ہے ۔ انبیاء کرام کا درجہ شہداء سے بھی بلند ہے اس لئے احادیث کے مطابق ان کی ارواح کا تعلق جسم سے سب سے زیادہ ہوتا ہے ،یہاں تک کہ ان کی میراث بھی تقسیم نہیں ہوتی اور ان کے ازواج کا نکاح بھی دوسرے کے ساتھ نہیں ہو سکتا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ۔ چونکہ ان کی ارواح کا تعلق سب سے زیادہ ہوتا ہے اس لئے شہداء کی طرح انہیں بھی احیاء قراردیا گیا ہے ،مگر یہ حیات اس طرح کی نہیں ہے جیسی انہیں موت سے پہلے حاصل تھی
(فتاوی عثمانی:1/70،معارف القرآن)
(2)
عقیدہ حیات انبیاء علیہم السلام قرآن وسنت کی واضح نصوص سے ثابت ہے ہم یہاں مختصراً چند آیات اور احادیث نبویہ علیہ السلام کا ذکر کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے
وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُون“ (الزخرف:45)
اس آیت مبارکہ سے مفسرین نے عقیدہ حیات پر استدلال فرمایا ہے ،چنانچہ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں
یستدل بہ علی حیاۃ الانبیاء “(مشکلات القرآن:234،تالیفات اشرفیہ)
ارشاد باری ہے
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (البقرۃ:154)
ترجمہ: ”اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو،دراصل وہ زندہ ہیں،مگر تم کو (ان کی زندگی) کا احساس نہیں ہوتا“
(آسان ترجمہ قرآن:90،معارف القرآن)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر عظیم قاضی ثناء اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
”والحق عندى عدم اختصاصها بهم بل حيوة الأنبياء أقوى منهم وأشد ظهورا اثارها في الخارج حتى لا يجوز النكاح بأزواج النبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته بخلاف الشهيد.“ (تفسیر المظھری:1/155،رشیدیہ)
ترجمہ: ”میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ یہ حیات شہداء ہی کو عطا نہیں ہوئی بلکہ آثار اور احکام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء میں یہ حیات سب سے زیادہ ہے حتیٰ کہ اس کا اثر خارج میں یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات سے آپ کی وفات کے بعد نکاح جائز نہیں بخلاف شہید کے کہ اس کی زوجہ سے نکاح جائز ہے
احادیث نبویہ بھی اسی عقیدہ حیات انبیاء علیہم السلام کی ناطق ہیں ،چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى اللّه عليه وسلم: إن للّه ملائكة سيّاحين في الْأرض يبلغوني من أمتي السلام.“ (مشکوۃ المصابیح:1/87،رحمانیہ)
وکذا فی (سنن النسائی:1/205،رحمانیہ)
ترجمہ: ”رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالی کے بہت سے فرشتے جو زمین پرسیاحت کرنے والے ہیں میری امت کا سلام میرے پاس پہنچاتے ہیں
ملا علی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں فرماتے ہیں
و فیہ اشارۃ الی حیاتہ الدائمۃ و فرحہ ببلوغ سلام امتہ الکاملۃ .“ (مرقاۃ:3/12،المکتبۃ التجاریہ)
ترجمہ: ”اس حدیث میں اشارہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو (قبر شریف میں ) حیات جاودانی حاصل ہے اور آپ علیہ السلام اپنی امت کے سلام پہنچنے پر خوش ہوتے ہیں“
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون.“ (مسند ابی یعلی:3/216،بیروت)
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں ،نماز پڑھتے ہیں
و فی مجمع الزوائد :(8/276،بیروت)
”عن انس بن مالک قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون رواہ ابو یعلی و البزار و رجال ابی یعلی ثقات.“
و فی سنن ابی داؤد:(1/157،رحمانیہ)
” عن أوس بن أوس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأكثروا علي من الصلاة فيه، فإن صلاتكم معروضة علي قال: قالوا: يا رسول الله، وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت – يقولون: بليت -؟ فقال: إن الله عز وجل حرم على الأرض أجساد الأنبياء
انہیں روشن دلائل کو دیکھتے ہوئے تمام فقہاء، متکلمین، محدثین اور امت کے سواد اعظم اہل السنۃ و الجماعت کا یہ اجماعی عقیدہ رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر تمام انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں بجسدہ موجود اور حیات ہیں ۔ یہاں چند ایک اقوال ذکر کیے جاتے ہیں۔
قال الحافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ تعالی
أن الأنبياء أفضل من الشهداء والشهداء أحياء عند ربهم فكذلك الأنبياء فلا يبعد أن يصلوا ويحجوا ويتقربوا إلى الله. فتح الباری:6/602،قدیمی
ترجمہ:”انبیاء علیہم السلام شہداء سے افضل ہیں اور شہداء اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں پس اسی طرح انبیاء علیہم السلام بھی زندہ ہیں پس بعید نہیں کہ وہ نماز پڑھتےہوں حج کرتے ہوں اور تقرب الی اللہ حاصل کرتے ہوں۔
اور ایک جگہ فرماتے ہیں
كون الشهداء أحياء بنص القرآن والأنبياء أفضل من الشهداء. (فتح الباری:6/360، قدیمی)
علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ اسی عقیدہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
”وما أفاده من ثبوت حياة الأنبياء حياة بها يتعبدون ويصلون في قبورهم مع استغنائهم عن الطعام والشراب كالملائكة أمر لا مرية فيه.“ (عون المعبود:3/213،قدیمی)
علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ان الانبیاء احیاء فی قبورھم کما ورد فی الحدیث (رسائل ابن عابدین:2/202،محمودیہ)
مذکورہ عبارات سے واضح ہے کہ تمام اہل السنت و الجماعت کا قرآن و حدیث کی روشنی میں یہی عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اجسام مبارکہ کے ساتھ قبروں میں موجود اور حیات ہیں ۔
انہیں حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اہل السنت و الجماعت دیوبند کے تمام علماء اس عقیدہ حیات کے متفقہ طور پر قائل ہیں، چنانچہ تمام علماء دیوبند کے اس اجماعی عقیدہ کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
“عندنا وعند مشائخنا حضرۃ الرسالۃ صلی اللہ علیہ و سلم حی فی قبرہ الشریف و حیاتہ صلی اللہ علیہ و سلم دنیویۃ من غیر تکلیف و ھی مختصۃ بہ صلی اللہ علیہ و سلم و بجمیع الانبیاء صلوات اللہ علیھم و الشہداء لا برزخیۃ کما ھی حاصلۃ لسائر المؤمنین بل لجمیع الناس کما نص علیہ العلامہ السیوطی فی رسالتہ انباء الاذکیاء بحیوۃ الانبیاء حیث قال قال الشیخ تقی الدین السبکی حیوۃ الانبیاء و الشہداء فی القبر کحیوتھم فی الدنیا و یشھد لہ صلوۃ موسی علیہ السلام فی قبرہ فان الصلوۃ تستدعی جسداً حیا الی آخر ما قال فثبت بھذا ان حیوتہ دنیویۃ برزخیۃ لکونھا فی عالم البرزخ.” (المہند علی المفند :36،الحسن)
ترجمہ: ” ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے بلا مکلف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور تمام انبیاء علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ برزخی نہیں ہے جو حاصل ہے تمام مسلمانوں بلکہ سب آدمیوں کو چنانچہ علامہ سیوطی نے اپنے رسالہ ”انباء الاذکیاء بحیاۃ الانبیاء “میں صراحتاً لکھا ہے،چنانچہ فرماتے ہیں کہ علامہ تقی الدین سبکی نے فرمایا کہ انبیاء و شہداء کی قبر میں حیات ایسی ہے جیسی دنیا میں تھی اور موسی علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا اسکی دلیل ہے کیونکہ نماز زندہ جسم کو چاہتی ہے۔
پس اس سے ثابت ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات دنیوی ہے اور اس معنی کے اعتبار سے برزخی بھی ہے کہ عالم برزخ میں حاصل ہے
الغرض عقیدہ حیات الانبیاء علیہم السلام قرآن و سنت سے ثابت امت کا اجماعی عقیدہ ہے اور تمام اہل السنت و الجماعت اس پر متفق ہیں، چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
”حیات انبیاء متفق علیہ است ہیچ کس را دروے خلافے نیست “ (اشعۃ اللمعات:1/613،رشیدیہ)
(3)
عقیدہ حیات انبیاء علیہم السلام قرآن و سنت کی نصوص سے واضح طور پر ثابت ہے اور امت کا اجماعی عقیدہ ہے ،لہذا بلاتاویل اسکا انکار کرنے والا بدعتی ہے اور اہل السنت و الجماعت سے خارج ہے، چنانچہ حضرت مولانا خیر محمد جالندھری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
بلا تاویل حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم کا منکر بدعتی ہے ۔ (خیر الفتاوی:1/120،امدادیہ)
وکذا فی جامع الفتاوی:(1/109،تالیفات اشرفیہ) و کذا فی جواھرالفتاوی:(1/432،اسلامی کتب خانہ)
نمبر2۔(1) اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر درود و سلام پڑھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بذات خود اسے سنتے ہیں اور جو درود و سلام قبر مبارک سے دور رہ کر پڑھا جائے اسے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک روضہ شریف میں پہنچاتے ہیں۔
لما فی شعب الایمان للبیہقی:(2/218،بیروت)
عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال: من صلی علی عند قبری سمعتہ و من صلی علیّ نائیا ابلغتہ
و کذا فی مشکوۃ المصابیح:(1/88،رحمانیہ) وکذا فی جواھر الفتاوی:(1/433،اسلامی کتب خانہ)
(2)
اتنی بات تو صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ امت کے اعمال بارگاہ رسالت میں پیش کیے جاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم امت کے نیک اعمال دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور گناہوں کو دیکھ کر استغفار فرماتے ہیں،لیکن پیر اور جمعرات کی تعیین صحیح حدیث سے ثابت نہین ہے ، البتہ ایک ضعیف روایت میں جمعہ کے دن کا ذکر ملتا ہے کہ جمعہ کے دن تمام انبیاء علیہم السلام پر انکی امتوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔
البتہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیر اور جمعرات کے دن اعمال کا پیش ہونا بھی صحیح روایات میں وارد ہے۔
لما فی الخصائص الکبری للسیوطی:(2/545،توفیقیہ)
أخرج الْحارث في مسنده وابن سعد والقاضي إسماعيل عن بكر بن عبد الله المزني قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حياتي خير لكم وموتي خير لكم تعرض علي أَعمالكم فما كان من حسن حمدت الله عليه وما كان من سيء استغفرت الله لكم .وأخرج الْبَزَّار بسند صحيح من حديث ابن مسعود مثله
و فی کنزالعمال:16/195،رحمانیہ
تعرض الأعمال يوم الاثنين والخميس على الله، وتعرض على الأنبياء وعلى الآباء والأمهات يوم الجمعة، فيفرحون بحسناتهم، وتزداد وجوههم بياضا وإشراقا، فاتقوا الله ولا تؤذوا موتاكم. الحكيم عن والد عبد العزيز
و فی الجامع الصغیر(3/330،بیروت)
تعرض الأعمال يوم الاثنين والخميس على الله، وتعرض على الأنبياء وعلى الآباء والأمهات يوم الجمعة، فيفرحون بحسناتهم، وتزداد وجوههم بياضا وإشراقا، فاتقوا الله ولا تؤذوا موتاكم. الحكيم عن والد عبد العزيز
ان روایات کی سند میں عبد الغفور بن عبد العزیز کا واسطہ آرہا ہے اور یہ عبد الغفور ضعیف راوی ہے، چنانچہ ”الکامل فی ضعفاء الرجال “میں ہے
حدّثنا ابن حماد، حدثنا العباس، عن يحيى، قال: عبد الغفور، وهو أبو الصباح ليس حديثه بشيء.سمعت ابن حماد يقول: قال البخاري عبد الغفور أبو الصباح الواسطي تركوه منكر الحديث
(الکامل:7/21،بیروت)
اب وہ روایات ذکر کی جاتی ہیں جن میں ہے کہ جمعرات اور پیر کے دن اعمال بارگاہ الہی میں پیش کیے جاتے ہیں ، چنانچہ جامع ترمذی میں ہے
“عن أبي هريرة، أن رسول اللّه صلى الله عليه وسلم قال: تعرض الأعمال يوم الاثنين والخميس، فأحب أن يعرض عملي وأنا صائم.” (جامع الترمذی:1/276،رحمانیہ) ھکذا فی سنن ابی داؤد:(1/352،رحمانیہ)
اس عرض اعمال کی تحقیق کو حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے بھی تفصیلا بیان فرمایا ہےکما فی امداد الاحکام:(1/136،دارالعلوم کراچی)
(3)
جی ہاں !اہل السنت و الجماعت کے ہاں آج بھی روضہ رسول پر حاضر ہو کر یہ عرض کرنا کہ یا رسول اللہ میرے لیے دعاء مغفرت فرما دیں اور میری شفاعت فرما دیں جائز ہے۔
اس عمل کی دلیل قرآن و سنت میں موجود ہے ، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا “ [النساء: 64]
ترجمہ: اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ،اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا ،بڑا مہربان پاتے ۔“(آسان ترجمہ قرآن: 204،معارف القرآن کراچی)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں
”یہ آیت اگرچہ خاص واقعہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور آپ اس کے لئے دعا مغفرت کردیں اس کی مغفرت ضرور ہوجائے گی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہو سکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفن کر کے فارغ ہوئے تو اس کے تین روز بعد ایک گاؤں والا آیا اور قبر شریف کے پاس آ کر گِرگیا اور زارو زار روتے ہوئے آیت مذکورہ کا حوالہ دے کر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ اگر گنہگار رسول کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور رسول اس کے لئے دعائے مغفرت کردیں تو اس کی مفرت ہوجائے گی، اس لئے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا کریں اس وقت جو لوگ حاضر تھےان کا بیان ہے کہ اس کے جواب میں روضہ اقدس کے اندر سے آواز آئی قدغفرلک یعنی مغفرت کردی گئی۔
(معارف القرآن: 2/459،460،ادارۃ المعارف)
و فی البحر المحیط :(3/296،بیروت)
روي عن علي كرم الله وجهه أنه قال: قدم علينا أعرابي بعد ما دفنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاثة أيام فرمى بنفسه على قبره وحثا من ترابه على رأسه ثم قال:يا خير من دفنت في الترب أعظمه … فطاب من طيبهن القاع والأكم
نفسي الفداء لقبر أنت ساكنه … فيه العفاف وفيه الجود والكرم ثم قال: قد قلت: يا رسول الله فسمعنا قولك، ووعيت عن الله فوعينا عنك، وكان فيما أنزل الله عليك ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم جاؤوك الآية، وقد ظلمت نفسي وجئت أستغفر الله ذنبي، فاستغفر لي من ربي، فنودي من القبر أنه قد غفر لك
و کذا فی تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر:(1/532،بیروت) و کذا فی خیر الفتاوی:(1/157،امدادیہ)
نمبر3۔ جی ہاں ! روضہ رسول پر حاضر ہونے والے خوش نصیب حضرات سے کہنا کہ میری طرف سے بھی سلام عرض کرنا ، یہ شرعاً درست ہے۔
احادیث مبارکہ سےیہ بات تو ثابت ہے کہ روضہ اقدس سے دور رہنے والے لوگوں کا درود و سلام فرشتوں کے ذریعے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا جاتا ہے،لہذا جب فرشتوں کے ذریعے پہنچنا درست ہوا تو روضہ اقدس پر حاضر ہونے والے انسانوں کے ذریعے پہنچانا بھی درست ہے۔
لما فی سنن النسائی:(1/205،رحمانیہ)
عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى اللّه عليه وسلم: إن لله ملائكة سياحين في الْأرض يبلغوني من أمتي السلام
نمبر4۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں ،لہذا قبر مبارک سے سلام کی آواز آنا یا دیگر خرق عادت امور کا باذنہ تعالی ظہور ہونا نہ عقلا ممتنع ہے نہ شرعا ،بلکہ یہ معجزہ یا کرامت کے قبیل سے ہیں ، لہذااسطرح کے واقعات اگر صحیح سند اور معتبر ذرائع سے ثابت ہو جائیں تو درست سمجھے جائیں گے ورنہ معتبر نہیں ہونگے۔
سوال میں مذکور پہلا واقعہ جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات سے متعلق ذکر کیا گیا ہے یہ صحیح سند سے ثابت نہیں بلکہ موضوع و منگھڑت ہے، لہذا معتبر نہ ہوگا۔
لما فی کنز العمال:(12/241،رحمانیہ)
عن أبي الطاهر محمد بن موسى بن محمد بن عطاء المقدسي عن عبد الجليل المري عن حبة العرني عن علي بن أبي طالب أن أبا بكر أوصي إليه أن يغسله بالكف الذي غسل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما حملوه على السرير استأذنوا، قال علي: فقلت: يا رسول الله! هذا أبو بكر يستأذن! فرأيت الباب قد فتح وسمعت قائلا يقول: أدخلوا الحبيب إلى حبيبه، فإن الحبيب إلى حبيبه مشتاق. “كر وقال: منكر، وأبو طاهر كذاب وعبد الجليل مجهول عن يزيد الرقاشي
و فی الخصائص الکبری:(2/546،التوفیقیة)
عن علی بن ابی طالب فقلت يا رسول الله هذا أبو بكر يستأذن فرأيت الباب قد فتح فسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق
وقال ابن عساكر هذا حديث منكر وفي إسناده أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء الْمقدسي كذاب عن عبد الجليل المري وهو مجهول
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا واقعہ کہ وہ تین دن تک روضہ اطہر سے اذان کی آواز سنتے رہے درست ہے اور صحیح روایات سے ثابت ہے۔
کما فی الخصائص الکبری:(2/544،التوفیقیہ)
“أخرج أبو نعيم عن سعيد بن المسيب قال لقد رأيتني ليالي الحرة وما في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم غيري وما يأتي وقت الصلاة إلا سمعت الآذان من القبر.”
و فی مشکوۃ المصابیح:(2/554،رحمانیہ)
“عن سعيد بن عبد العزيز قال: لما كان أيام الحرة لم يؤذن في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا ولم يقم ولم يبرح سعيد بن المسيب المسجد وكان لا يعرف وقت الصلاة إلا بهمهمة يسمعها من قبر النبيِ صلى الله عليه وسلم. رواه الدارمي.
ھکذا فی سنن الدارمی:(1/56،قدیمی)
و فی تھذیب التھذیب:(2/667،دارالکتب العلمیہ)
سعيدبن عبد العزيز بن أبي يحيى التنوخي قال عبد الله بن أحمد عن أبيه ليس بالشام رجل أصح حديثا من سعيد بن عبد العزيز هو الأوزاعي عندي سواء وقال ابن معين وأبو حاتم والعجلي ثقة
اسی طرح سوال میں مذکور دیگر واقعات کے بارے میں تحقیق سے کام لیا جائے۔
نمبر5۔محقق العصر ڈاکٹر علامہ خالد محمود رحمہ اللہ عقیدہ ممات کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”سلطان طغرل بیگ سلجوقی کے عہد حکومت میں نیشا پور کے قریب ایک بہت فتنہ پرداز شخص گزرا ہے اسکا نام بیکندی تھا ۔ وہ لطائف الحیل سے سلجوقی دربار میں منصب وزارت پر آگیا تھا ۔ اس کے عقائد اعتزال و روافض کا امتزاج تھے۔
445 ہجری کے قریب اس نے وفات النبی اور جسد جمادی کی تمہید سے انتفاءنبوت کا عقیدہ اختیار کیا۔ اسکا اعتقاد تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا جسد اطہر روضہ منورہ میں محض بے حس و بے شعور ہے۔ اس نے اسے انعزال نبوت کے لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم وفات شریفہ کے بعد اب حقیقتا رسول نہیں رہے،ایک سیڑھی بنایا ۔۔۔۔اس کے عقیدہ میں روضہ منورہ کی حیات جسمانی کا انکار اس لیے بھی تھا کہ اس سے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے جوار رسول میں ہونے اور روضہ اطہر میں ہم پہلو سونے کی شان امتیاز کمزور ہوتی تھی ۔ممکن ہے اِس سے اُس کے رفض کو کچھ تسکین پہنچتی ہو۔
پھر وفات کےبعد روح و بدن کی کلی مفارقت سے عذاب قبر کا انکار بہت ہی آسان ہو جاتا تھا سو اِس سے اُس کے اعتزال کو قوت ملتی تھی“ )مقام حیات:43،دارالمعارف)
(2)
اس سے پہلے اس عقیدہ (حیات انبیاء علیہم السلام ) کا روافض اور کرامیہ نے بھی انکار کیا ہے، چنانچہ علامہ خالد محمود رحمہ اللہ فرماتے ہیں
اول الذکر نظریہ معتزلہ و روافض کا ہے وہ عذاب قبر کے قائل نہیں ۔ان کے نزدیک جسد مدفون محض جمادی حیثیت رکھتا ہے ۔۔۔فرقہ کرامیہ اور صالحیہ اسکے قائل ہیں کہ اجساد مدفونہ ہیں تو محض جمادی حیثیت میں ،لیکن عذاب قبر پھر بھی حق ہے۔
(مقام حیات:43،دارالمعارف)
اور ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں
”چوتھی صدی ہجری کے آخر میں کرامیہ جو عبد اللہ بن کرام کے پیرو تھے اس مسئلہ میں کھلے طور پر آگئے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اب نبی اور رسول نہیں رہے ،آپ روح اور بدن میں منقسم ہیں“ (مقام حیات:51،دارالمعارف)
(3)
جی ہاں! 18 محرم 1382ھ بمطابق 22 جون 1962ء کو راولپنڈی میں حضرت اقدس مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ نے فریقین میں فیصلہ فرمایا اور دونوں فریق عقیدہ حیات الانبیاء پر متفق ہوئے اور ذمہ داروں نے درج ذیل عبارت پر دستخط بھی فرمائے:
وفات کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے جسد اطہر کو برزخ (قبر شریف) میں بہ تعلق روح حیات حاصل ہے اور اس حیات کی وجہ سے روضہ اقدس پر حاضر ہونے والوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلوۃ و سلام سنتے ہیں ۔
(خیر الفتاوی:1/94، امدادیہ) (مقام حیات:710،دارالمعارف)
نمبر6۔(1)،(2)،(3)، (4) ،(5) ان سب جزئیات کا جواب گذشتہ تحریر و جوابات سے خودبخود سمجھ میں آجاتا ہے لہذا مستقل تحریر کی ضرورت نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ فرخ عثمان غفر لہ و لوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
15/5/1442/2020/12/31
جلد نمبر:23 فتوی نمبر:103