سوال

سودی بینک کو دوکان کرایہ پر دینا جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

جائز نہیں۔

لما فی القرآن الکریم:(المائدہ:2)
وَتَعَاوَنُوْاعَلی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَان
وفی تکملة فتح الملہم:(1/619،دارالعلوم کراچی)
ومن ھنا ظھر ان التوظف فی البنوک الربویۃ لایجوز، فان کان عمل الموظف فی البنک ما یعین علی الربا کالکتابۃ او الحساب، فذلک حرام لوجھین :الاول:اعانۃ علی المعصیۃ، والثانی:اخذالاجرۃ من المال الحرام فان معظم دخل البنوک حرام مستجلب بالربا،وامااذا کان العمل لاعلاقۃ لہ بالربا فانہ حرام للوجہ الثانی فحسب فاذا وجد بنک معظم دخلہ حلال،جاز فیہ التوظف للنوع الثانی من الاعمال
وکذا فی البدائع:(4/39،رشیدیہ)
وکذا فی الھندیة:(5/343،رشیدیہ)
وکذا فی مجمع الانھر:(4/186،المنار)
وکذا فی سنن ابی داؤود :(2/118،رحمانیہ)
وکذافی المحیط البرھانی:(11/346،بیروت)
وکذا فی فقہ البیوع:(2/1021،معارف القرآن)
وکذا فی تنویر الابصار مع الدر المختار:(9/92،رشیدیہ)
وکذا فی اعلاءالسنن:(14/482،ادارة القرآن والعلوم الاسلامیہ)

واللہ اعلم بالصواب
سید ممتاز شاہ بخاری غفر لہ ولوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2022/12/6/11/5/1444
جلد نمبر:28 فتوی نمبر: 81

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔