الجواب حامداً ومصلیا
مرحوم نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جائیداد منقولہ(جیسے:سونا،چاندی، وغیرہ)اور غیر منقولہ (جیسے: دکان،مکان اور فصل وغیرہ)غرض چھوٹا بڑا جو بھی سامان چھوڑا،نیز مرحوم کا قرضہ اور ایسے واجبات جو کسی فرد یا ادارے کے ذمے ہوں، یہ سب میت کا ترکہ شمار ہو گا۔اس کے بعدمیت کے ترکہ کے ساتھ چند حقوق متعلق ہوتے ہیں،جنہیں بالترتیب ادا کرنا ضروری ہوتاہے:1)سب سے پہلے میت کے دفن تک تمام ضروری مراحل پر ہونے والےجائز اور متوسط اخراجات نکالے جائیں گے،اگر کسی بالغ وارث یا کسی اور نے تبرعا اس کا نظم کر دیا تو ترکہ سے یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں۔2)اس کے بعد میت کے ذمے کسی کا قرض ہو تو بچے ہوئے مال سے وہ ادا کیا جائے گا،خواہ قرض کی ادائیگی میں سارا مال خرچ ہو جائے۔ واضح رہے اگر مرحوم نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا تھااور بیوی نے خوش دلی سے معاف بھی نہیں کیا تھا تو وہ بھی قرض شمار ہو گا۔3)اس کے بعد میت نے اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کی تہائی تک پوری کی جائے گی۔4)ان تمام حقوق کی ادائیگی کے بعد جو بھی ترکہ بچے، اس کو درج ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم کیا جائے گا:
کل ترکہ کے72 برابرحصے بناکران میں سے 9حصے(%12.5)بیوی کو،7حصے(%9.72)ہر بیٹی کو، اور 14حصے (٪19.44)ہر بیٹے کو دے دیے جائیں۔سوال میں مذکور 5000 میں سےبیوی کو 625روپے،ہر بیٹی کو 486.11روپےاور ہر بیٹے کو 972.22 روپے ملیں گے۔
اور 2ایکڑزمین (16کنال) بنتی ہے اس میں سےبیوی کو 2 کنال،ہر بیٹے کو 3.11کنال اور ہر بیٹی کو 1.55کنال دی جائے گی۔سوال میں مذکور چھ مرلے کی دکانوں کا رقبہ (1620) اسکوائر فٹ ہے اس میں سے بیوی کو 202.5اسکوائر فٹ،ہر بیٹی کو 157.5،اور ہر بیٹے کو 315 اسکوائر فٹ ملیں گے ۔
نوٹ: فی مرلہ 270،اسکوائر فٹ کا شمار کیا گیا ہے۔
لما فی القرآن المجید:( النساء:12)
فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ
وفی الفقہ الاسلامی وادلتہ:(10 /7773،7775،رشیدیہ)
التعصيب بالغير: مع الابن الذكر، فيأخذ الذكر ضعف الأنثى، سواء تعددت البنات أو تعدد الأبناء
وفیہ ایضا:(10/7773،7775،رشیدیہ)
أحوال الزوجة: الثمن:…. مع الفرع الوارث – الولد وولد الابن وإن سفل، سواء أكان منها أم من غيرها
وکذا فی الموسوعة الفقھیة:(3/31،32،علومِ اسلامیة)
حالات الزوجات….ان یکون فرضھا الثمن وذٰلک اذا کان للزوج فرع وارث منھا او من غیرھا …احول البنات…ان یکون معھن ابن صلبی أو ابناء ففی ھٰذہ الحالة یکون الجمیع عصبة للذکر مثل حظ الانثیین
وکذا فی الھندیہ:(6/450،451،رشیدیہ) وکذافی کنزالدقائق:(10/7773،حقانیہ)
وکذا فی المبسوط:(29/138،148،داراحیاء) وکذافی التنویرمع الدر:(6/775،769 سعید)
واللہ اعلم بالصواب
عبدالقدوس بن خیرالرحمٰن
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
24/6/1442/2021/2/7
جلد نمبر:23 فتوی نمبر:37