الجواب بعون الملک الوھاب
اصحاب فروض کو ان کا متعینہ حصہ دینے کے بعد، بچنے والے ترکہ کے سب سے زیادہ مستحق، رحم و قرابت والے رشتہ دار ہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: “و اولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ “(الاحزاب:6)
”ترجمہ:اللہ کی کتاب کے مطابق پیٹ کے رشتہ دار، دوسرے مؤمنون اور مہاجرین کے مقابلے میں ایک دوسرے پر( میراث کے معاملےمیں) زیادہ حق رکھتے ہیں۔“(آسان ترجمہ قرآن:884)
اور زوجین کے درمیان چونکہ قرابت و رحم والا رشتہ نہیں، لہذا یہ اس بقیہ مال کے مستحق نہیں ۔ نیز اصحاب فروض کا میت سے رشتہ قرابت کا ہے جبکہ زوجین کا آپس میں رشتہ، نکاح کی وجہ سے ہے لہذا یہ رشتہ ضعیف ہے ،تو متعینہ حصص کی تقسیم کے بعد زائد مال کے مستحق قوی رشتہ رکھنے والے یعنی اصحاب فروض ہوں گے۔
لما فی الفقہ الاسلامی وادلتہ:(10/7826،رشیدیہ)
قولہ تعالی “واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ “فانہ یفید ان ذوی الارحام الاقرباء الی المیت اولی بالترکۃ ممن عداھم ـ ـ ـ ـ ولما کان الزوجان لیسا من الاقرباء لم تشملھما الآیۃ فلا یاخذان بالرد شیئا لان میراثھما بسبب آخرغیر الرحم و القرابۃ وھو الزوجیۃ
وفی حاشیة الطحطاوی علی الدر المختار :(4/394،رشیدیة)
ان میراث الزوجین علی خلاف القیاس لان وصلتھما بالنکاح و قد انقطعت بالموت وما ثبت علی خلاف القیاس نصا یقتصر علی مورد النص ولا نص فی الزیادۃ علی فرضھما
وکذافی البحر الرائق :(9/412،رشیدیہ) وکذافی الجوھرة النیرة:(2/661،قدیمی)
وکذافی حاشیة السراجی :(69،البشری) وکذافی تبیین الحقائق :(6/242،امدادیة)
وکذافی الموسوعة الفقھیة:(3/50،علوم اسلامیہ ) وکذافی الشامیہ:(10/570،رشیدیة)
وکذافی شریفیہ شرح سراجیہ للعلامہ جرجانی :(75،قدیمی)
وکذافی اعلاء السنن:(18/403،ادارة القرآن والعلوم الاسلامیہ)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ فرخ عثمان عفی اللہ عنہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
4/27/1442/13/12/2020
جلد نمبر:22 فتوی نمبر:40