الجواب حامداً ومصلیاً
صورت مسئولہ اگر حقیقت پر مبنی ہے تو یہ نکاح ہی منعقد نہیں ہوا، کیونکہ نکاح درست ہونے کے لیے” دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں“ کی گواہی ضروری ہے اور جب نکاح نہیں ہوا تو لڑکے کی طرف سے دی گئی تین طلاقوں کا بھی کوئی اعتبار نہیں،لہذا جب نہ ان کا نکاح ہوا تھا اور نہ ہی طلاقیں واقع ہوئی تو اگر یہ مردوزن چاہیں تو نکاح کر کے اکھٹے زندگی گزار سکتے ہیں۔
لما فی الھندیة:(1/267،رشیدیہ)
ویشترط العدد فلا ینعقد النکاح بشاھد واحد ھکذا فی البدائع ولا یشترط وصف الذکورۃ حتی ینعقد بحضور رجل و امراتین کذا فی الھدایۃ
وفی المبسوط:(5/33،بیروت)
فکان ینبغی ان ینعقد النکاح بشھادۃ رجل و امراۃ ولکنا نقول قد ثبت بالنص ان المراتین شاھد واحد فکانت المراۃ الواحدۃ نصف الشاھد و بنصف الشاھد لا یثبت شیئ
وکذافی الھدایة:(2/8،حسن)
وکذافی البدائع:(2/527،رشیدیہ)
وکذافی التاتارخانیة:(4/36،فاروقیہ)
وکذافی فتح القدیر:(3/191،رشیدیہ)
وکذافی النھرالفائق:(2/181،رشیدیہ)
وکذافی البحر الرائق:(3/155،رشیدیہ)
وکذافی سنن الدار قطنی:(2/158،دارالکتب العلمیہ)
واللہ اعلم بالصواب
سید ممتاز شاہ بخاری
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2023/02/07/15/7/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:8