سوال

میرا نام جاوید ہے اور میں گورنمنٹ کے ایک ادارے میں ملازمت کرتا ہوں۔ میرے ایک دوست (سعد) کو ادارے نے ان کی ملازمت کے صلہ میں بطور تحفہ ایک پلاٹ دیا ہے جو کہ اصل قیمت سے بہت کم قیمت میں دیا جا رہا ہے۔ سعد کو یہ پلاٹ 19 لاکھ کا مل رہا ہے۔ کچھ رقم ابتداء میں اور باقی کئی سالوں میں ششماہی اقساط کے ذریعہ ادا کرنی ہوں گی۔ جس کے بعد قبضہ ملے گا، اس وقت پلاٹ کا تعین بھی نہیں ہے کہ پلاٹ نمبر کیا ہے۔ سعد کی ملازمت چونکہ 2 ماہ بعد ختم ہو جائے گی اور وہ ان سب معاملات کو مزید آگے نہیں لے جانا چاہتا، اسی بناء پر وہ مذکورہ پلاٹ سرِ دست فروخت کرنا چاہتا ہے اور میں (جاوید)یہ پلاٹ خریدنا چاپتا ہوں۔ اس صورت میں تمام رقم ، جس بھی ترتیب سے ادارے کی پالیسی ہے، میں ادا کروں گا ، البتہ سعد کو ایک قسم کے نفع کے طور پرمزید 5 لاکھ ادا کروں گا۔ کیونکہ اگر یہی پلاٹ میں باہر کسی اور سے لیتا تو شاید 19 لاکھ کا نہ ملتا اور سعد کی بدولت مجھے یہ اصل رقم سے سستا مل رہا ہے۔ میں اور سعد اِس وقت ایک معاہدہ کریں گے جس کے تحت جب تما م رقم ( 19 لاکھ اور 5 لاکھ) کی ادائیگی میں کر دوں گا تو یہ پلاٹ میرا ہو جائے گا ۔ نوٹ: (ا)۔جاوید اور سعد ایک ہی ادارے کے ملازم ہیں۔(ب)۔ ادارے کی طرف سے پلاٹ کی قسطیں مکمل ہو جانے کے بعد فروخت کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔(ج)۔مذکورہ معاملہ میں تمام اقساط اگرچہ جاوید ادا کروائے گا لیکن ادارے میں یہ اقساط سعد ہی کے نام سے جمع ہوں گی۔ (د)۔سعد اور جاوید کے درمیان ابتداء ہی میں گواہوں کی موجودگی میں ایک قانونی دستاویز تیار کی جائے گی جس کی بناء پر جب اقساط مکمل ہو جائیں گی تو وہ پلاٹ جاوید کے نام منتقل ہو جائے گا۔ سوال:1۔کیا یہ خرید و فروخت کا طریقہ درست ہے؟2۔اگر نہیں تو اس کا متبادل جائز طریقہ کیا ہے کہ اس معاملہ کو مکمل کیا جا سکے؟ کیونکہ اگر میں نہیں بھی لوں گا تو سعد کسی نہ کسی کو تو فروخت کر ہی دے گا۔ 3۔کیا سعد کے لئے اس پلاٹ کو اس طرح فروخت کرنا جائز ہے؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

جب کوئی سرکاری ادارہ اپنے ملازمین کےلیے زمین الاٹ کرتا ہے تو عموماً پہلے جگہ کاانتخاب کرلیا جاتا ہے اور یہ تعیین کرلی جاتی ہے کہ فلاں جگہ پلاٹ بنا کر ملازمین میں تقسیم کیے جائیں گے اور اس زمین اور محل وقوع سے متعلق دستاویز ڈاکومنٹس کے نام پر گورنمنٹ ملازم کو بھی دیتی ہے۔اس صورت میں چونکہ پہلے سے زمین کا محل وقوع اور حدود اربعہ معلوم ہو چکی ہوتی ہیں اور اوصاف کی بھی قدرے تعیین ہوجاتی ہے،لہذا اس صورت میں اگر کوئی ملازم اپنے نام الاٹ ہونے والے پلاٹ کو فروخت کرنا چاہے تو جائز ہے، اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں،کیونکہ یہ ایک مشاع حصہ کی بیع ہے اور متعینہ زمین میں سے مشاع حصہ کی بیع جائز ہے۔
البتہ یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بعض دفعہ کچھ سرکاری ادارے زمین کا انتخاب کرنے سے پہلے ہی ملازمین کےلیے پلاٹ الاٹ کرنے کا اعلان کردیتے ہیں ،پلاٹ کا محل وقوع اور دیگر اوصاف کا کوئی تعین نہیں ہوتا۔ اگر ایسی صورت ہو تو پھر مذکورہ پلاٹ کی فروخت جائز نہ ہوگی، کیونکہ ابھی تک پلاٹ ذات و اوصاف کے اعتبار سے مجہول ہونے کی وجہ سے بمنزلہ معدوم کے ہے اور معدوم چیز کی بیع شرعا جائز نہیں۔
اس صورت میں اس معاملے کا درست متبادل یہ ہوسکتا ہے کہ ابھی سعد جاوید سے اس طرح وعدہ بیع کرے کہ جب مجھےپلاٹ مل جائے گا تو میں 24 لاکھ کا تمہیں فروخت کردونگااور پھر اس وعدہ سے ہٹ کر الگ طور پر جاوید سے کہے کہ آپ مجھے یکمشت یا قسطوں کی صورت میں 19 لاکھ روپے قرض دے دو۔ یہ دونوں معاملے الگ الگ ہونے چاہئیں،ایک ساتھ نہ ہوں۔
پھر جب اس پلاٹ کی تعیین وغیرہ ہوجائے یا سعد کو قبضہ مل جائے تو اس وقت اپنا وعدہ وفا کرتے ہوئے یہ پلاٹ 24 لاکھ میں جاوید کو فروخت کردے گا ۔ اب 19 لاکھ جاوید نے بھی سعد سے وصول کرنا ہوگا تو اس رقم کا ادلہ بدلہ ہوجائے گا ،باقی 5 لاکھ جاوید سعد کے سپرد کرکے پلاٹ پر قبضہ کرلے گا۔

لما فی الفتاوی الھندیة:(3/3،رشیدیة)
و منھا أن یکون المبیع معلوما و الثمن معلوما علما یمنع من المنازعۃ فبیع المجھول جھالۃ تفضی الیھا غیر صحیح
وفی فقہ البیوع:(1/376،377،378،معارف القرآن)
قد تباع قطعۃ من الارض مقدرۃ بالخطوات او الأمتار ولکن یترک تعیینھا للمستقبل و ھذا یکون عادۃ فی أرض واسعۃ تشتریھا شرکۃ ثم تبیع قطعاتھا لعامۃ الناس تقدر بالخطوات و الأمتار فمثلاً کل قطعۃ منھا بقدر خمسمائۃ متر و لکن لا یتعین محل تلک الخمسمائۃ عند الشراء وانما یتعین حسب التصمیم الذی تعملہ الشرکۃ فیما بعد فالسؤال ھل یصح ھذا البیع علی انہ بیع حصۃ مشاعۃ من تلک الارض الواسعۃ ؟ ….قال صاحباہ یجوز ذلک علی اساس انہ بیع لحصۃ مشاعۃ من الدار و بیع المشاع جائز…. و علی ھذا فإن بیع قطعۃ غیر معینۃ من جملۃ القطعات لا یجوز عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی و یجوز عند صاحبیہ و الظاھر أنہ ان کانت جھالۃ التعیین تفضی الی المنازعۃ فالأخذ بقول الامام ابی حنیفۃ اولی و ان لم تکن مفضیۃ الی المنازعۃ فقول الصاحبین اولی بالاخذ ….حینما تباع قطعۃ من الارض فی الصورۃ المذکورۃ فانھا تقوم علی اساس محل وقوعھا فان القطعۃ الواقعۃ علی شارع عام ثمنھا مختلف عن القطعۃ التی لیست علی شارع عام ….فإن تعین محل وقوعھا وثمنھا بھذا الطریق فانہ یمکن ان تعتبر مما لایتفاوت آحادھ فیجوز ھذا البیع علی قول الشافعیۃ و الصاحبین و کذلک ینبغی ان یجوز لمن اشتراہ ان یبیعہ الی آخر علی قول ابی یوسف رحمہ اللہ لانہ یجوز بیع العقار قبل قبضہ
وفی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(5/3463،رشیدیہ)
و اما العقار کالاراضی و الدور فیجوز بیعہ قبل القبض عند ابی حنیفۃ و ابی یوسف استحسانا استدلالا بعمومات البیع من غیر تخصیص عموم الکتاب بخبر واحد ، و لاغرر فی العقار اذ لا یتوھم ھلاک العقارولایخاف تغیرہ غالبا بعد وقوع البیع و قبل القبض
وکذافی بدائع الصنائع:(4/355،رشیدیہ)
وکذافی الدر المختار:(7/383،رشیدیہ)
وکذافی الموسوعة الفقھیة:(9/125،علوم اسلامیة)
وکذافی الموسوعة الفقھیة:(26/290،علوم اسلامیة)

واللہ اعلم بالصواب
فرخ عثمان غفرلہ و لوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
6/2/2021/1442/6/23
جلد نمبر:23 فتوی نمبر:34

شیئر/ پرنٹ کریں

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔