الجواب حامداً ومصلیاً
جب کوئی سرکاری ادارہ اپنے ملازمین کےلیے زمین الاٹ کرتا ہے تو عموماً پہلے جگہ کاانتخاب کرلیا جاتا ہے اور یہ تعیین کرلی جاتی ہے کہ فلاں جگہ پلاٹ بنا کر ملازمین میں تقسیم کیے جائیں گے اور اس زمین اور محل وقوع سے متعلق دستاویز ڈاکومنٹس کے نام پر گورنمنٹ ملازم کو بھی دیتی ہے۔اس صورت میں چونکہ پہلے سے زمین کا محل وقوع اور حدود اربعہ معلوم ہو چکی ہوتی ہیں اور اوصاف کی بھی قدرے تعیین ہوجاتی ہے،لہذا اس صورت میں اگر کوئی ملازم اپنے نام الاٹ ہونے والے پلاٹ کو فروخت کرنا چاہے تو جائز ہے، اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں،کیونکہ یہ ایک مشاع حصہ کی بیع ہے اور متعینہ زمین میں سے مشاع حصہ کی بیع جائز ہے۔
البتہ یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بعض دفعہ کچھ سرکاری ادارے زمین کا انتخاب کرنے سے پہلے ہی ملازمین کےلیے پلاٹ الاٹ کرنے کا اعلان کردیتے ہیں ،پلاٹ کا محل وقوع اور دیگر اوصاف کا کوئی تعین نہیں ہوتا۔ اگر ایسی صورت ہو تو پھر مذکورہ پلاٹ کی فروخت جائز نہ ہوگی، کیونکہ ابھی تک پلاٹ ذات و اوصاف کے اعتبار سے مجہول ہونے کی وجہ سے بمنزلہ معدوم کے ہے اور معدوم چیز کی بیع شرعا جائز نہیں۔
اس صورت میں اس معاملے کا درست متبادل یہ ہوسکتا ہے کہ ابھی سعد جاوید سے اس طرح وعدہ بیع کرے کہ جب مجھےپلاٹ مل جائے گا تو میں 24 لاکھ کا تمہیں فروخت کردونگااور پھر اس وعدہ سے ہٹ کر الگ طور پر جاوید سے کہے کہ آپ مجھے یکمشت یا قسطوں کی صورت میں 19 لاکھ روپے قرض دے دو۔ یہ دونوں معاملے الگ الگ ہونے چاہئیں،ایک ساتھ نہ ہوں۔
پھر جب اس پلاٹ کی تعیین وغیرہ ہوجائے یا سعد کو قبضہ مل جائے تو اس وقت اپنا وعدہ وفا کرتے ہوئے یہ پلاٹ 24 لاکھ میں جاوید کو فروخت کردے گا ۔ اب 19 لاکھ جاوید نے بھی سعد سے وصول کرنا ہوگا تو اس رقم کا ادلہ بدلہ ہوجائے گا ،باقی 5 لاکھ جاوید سعد کے سپرد کرکے پلاٹ پر قبضہ کرلے گا۔
لما فی الفتاوی الھندیة:(3/3،رشیدیة)
و منھا أن یکون المبیع معلوما و الثمن معلوما علما یمنع من المنازعۃ فبیع المجھول جھالۃ تفضی الیھا غیر صحیح
وفی فقہ البیوع:(1/376،377،378،معارف القرآن)
قد تباع قطعۃ من الارض مقدرۃ بالخطوات او الأمتار ولکن یترک تعیینھا للمستقبل و ھذا یکون عادۃ فی أرض واسعۃ تشتریھا شرکۃ ثم تبیع قطعاتھا لعامۃ الناس تقدر بالخطوات و الأمتار فمثلاً کل قطعۃ منھا بقدر خمسمائۃ متر و لکن لا یتعین محل تلک الخمسمائۃ عند الشراء وانما یتعین حسب التصمیم الذی تعملہ الشرکۃ فیما بعد فالسؤال ھل یصح ھذا البیع علی انہ بیع حصۃ مشاعۃ من تلک الارض الواسعۃ ؟ ….قال صاحباہ یجوز ذلک علی اساس انہ بیع لحصۃ مشاعۃ من الدار و بیع المشاع جائز…. و علی ھذا فإن بیع قطعۃ غیر معینۃ من جملۃ القطعات لا یجوز عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی و یجوز عند صاحبیہ و الظاھر أنہ ان کانت جھالۃ التعیین تفضی الی المنازعۃ فالأخذ بقول الامام ابی حنیفۃ اولی و ان لم تکن مفضیۃ الی المنازعۃ فقول الصاحبین اولی بالاخذ ….حینما تباع قطعۃ من الارض فی الصورۃ المذکورۃ فانھا تقوم علی اساس محل وقوعھا فان القطعۃ الواقعۃ علی شارع عام ثمنھا مختلف عن القطعۃ التی لیست علی شارع عام ….فإن تعین محل وقوعھا وثمنھا بھذا الطریق فانہ یمکن ان تعتبر مما لایتفاوت آحادھ فیجوز ھذا البیع علی قول الشافعیۃ و الصاحبین و کذلک ینبغی ان یجوز لمن اشتراہ ان یبیعہ الی آخر علی قول ابی یوسف رحمہ اللہ لانہ یجوز بیع العقار قبل قبضہ
وفی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(5/3463،رشیدیہ)
و اما العقار کالاراضی و الدور فیجوز بیعہ قبل القبض عند ابی حنیفۃ و ابی یوسف استحسانا استدلالا بعمومات البیع من غیر تخصیص عموم الکتاب بخبر واحد ، و لاغرر فی العقار اذ لا یتوھم ھلاک العقارولایخاف تغیرہ غالبا بعد وقوع البیع و قبل القبض
وکذافی بدائع الصنائع:(4/355،رشیدیہ)
وکذافی الدر المختار:(7/383،رشیدیہ)
وکذافی الموسوعة الفقھیة:(9/125،علوم اسلامیة)
وکذافی الموسوعة الفقھیة:(26/290،علوم اسلامیة)
واللہ اعلم بالصواب
فرخ عثمان غفرلہ و لوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
6/2/2021/1442/6/23
جلد نمبر:23 فتوی نمبر:34