الجواب حامداً ومصلیاً
حیدر علی خلیل کی بیوی کو تین طلاقیں ہوگئی ہیں اور وہ اس پر حرام ہو گئی ہے، اب ان دونوں کا اکٹھا رہنا حرام اور سخت گناہ ہے۔ دونوں میں فوراً علیحدگی کروائی جائے ۔
احادیث صحیحہ کی روشنی میں ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہیں۔ اس پر متعدد مرفوع احادیث موجود ہیں
(1)
چنانچہ صحاح ستہ میں سے”ابو داؤد شریف”میں حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے حضورﷺ کے سامنے تین طلاق دی تھیں تو حضورﷺ نےانہیں نافذ فرمادیا تھا۔
عن سھل بن سعد، فی ہذا الخبر، قال: فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم
ترجمہ:حضرت سہل بن سعد سے اس خبر(حضرت عویمر عجلانی کے واقعہ لعان) کے بارے میں مروی ہے کہ حضرت عویمر نے حضورﷺ کے سامنے تین طلاقیں دیں تو حضورﷺ نے ان کو نافذ کر دیا۔ (سنن ابی داؤد: 2/140،دار الکتب)
(2)
“سنن دارقطنی ” میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسن بن علی نے اپنی بیوی کو فرمادیا تھا “اِذْھَبِیْ فَاَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً”(جا تجھے تین طلاق ) عدت گزارنے کے بعد آپ نے اپنی مطلقہ کو کچھ ہدیہ وغیرہ بھیجا تو اس خاتون نے کہا”مَتَاعٌ قَلِیْلٌ مِنْ حَبِیْبِ مُفَارِقٍ”(آپ سے جدائی کے بدلے میں یہ بہت تھوڑا ہے)اور وہ چیز قبول کرنے سے انکار کردیا۔جب یہ بات حضرت حسن کو معلوم ہوئی تو آپ رونے لگے اور فرمایا
لولا أنی سمعت جدی أو حدثنی أبی أنہ سمع جدی یقول: أیما رجل طلق امرأتہ ثلاثا مبھمۃ أو ثلاثا عند الاقراء لم تحل لھ حتى تنكح زوجا غیرہ لراجعتھا
ترجمہ: اگر میں نے اپنے نا نا (حضورﷺ)سے یہ بات نہ سنی ہوتی کہ”جس شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دے دی ہوں یا تین طہروں میں تین طلاقیں دے دی ہوں تو وہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے” تو میں اس سے رجوع کر لیتا ۔
(سنن الدار قطنی: 4/20، دارالکتب)
(3)
حضرت عبد اللہ بن عمر نے حالت حیض میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی، حضورﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺ نے رجوع کا حکم دیا اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن عمر نے دریافت کیا
یا رسول اللہ أفرأیت لو أنی طلقتہا ثلاثا كان یحل لی أن أراجعھا؟قال:”لا كانت تبین منك وتكون معصیۃ
(السنن الکبری للبیھقی:7/546، دار الکتب)
ترجمہ: اےاللہ کے رسول!آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگر میں تین طلاقیں دے دیتا، تو میرے لیے رجوع حلال ہوتا؟آپﷺ نے فرمایا : نہیں، وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اور گناہ بھی ہوتا۔
(4)
سنن دار قطنی”میں ہے:(4/10،دار الکتب)
أن حفص بن المغیرۃ طلق امرأتہ فاطمۃ بنت قیس على عہد رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ثلاث تطلیقات فی كلمۃ واحدۃ، فأبانھا منہ النبی صلى اللہ علیہ وسلم
ترجمہ: حضرت حفص بن مغیرہ نے حضورﷺ کے زمانے میں اپنی بیوی کو ایک کلمہ سے تین طلاقیں دیں تو آپﷺ نے ان کی بیوی کو ان سے جدا کر دیا۔
(5)
بیہقی”اور “مصنف ابن ابی شیبہ”میں حضرت علی کا فیصلہ موجود ہے
“جاء رجل إلى علی فقال:انی طلقت امرأتی ألفا قال: بانت منك بثلاث، واقسم سائرھابین نسائك. “(السنن الکبری للبیھقی: 7/548۔ومصنف ابن ابی شیبہ: 4/63، دار الکتب)
ترجمہ: ایک آدمی حضرت علی کے پاس آکر کہنے لگا میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دی ہیں۔آپ نے فرمایا تین طلاق سے تیری بیوی تجھ پر حرام ہو گئی اور باقی طلاقیں عورتوں میں تقسیم کر دے۔
(6)
ایک ہی مجلس کی تین طلاق کے بارے میں حضرت عمران بن حصین کا فیصلہ ملاحظہ فرمائیں
سئل عمران بن حصین عن رجل طلق امرأتہ ثلاثا فی مجلس، قال: أثم بربہ، وحرمت علیہ امرأتہ
(مصنف ابن ابی شیبہ: 4/ 62، دارالکتب)
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین سے اس آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاق دیں، فرمایا: اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی۔
آیت”الطلاق مرتان”سے استدلال اس لیے درست نہیں کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ رجوع کا حق دو طلاق تک ہے، تیسری کے بعد رجوع کا کوئی اختیار نہیں اور قرآن کریم میں ایک مجلس یا ایک جملہ کی کوئی قید وغیرہ نہیں، لہذا جو آدمی بھی دو سے زیادہ یعنی تین طلاق دے، اس آیت کی رو سے اس کے لیے رجوع کا اختیار نہیں، جب تک یہ عورت آگے دوسرا نکاح نہ کر لے، جیساکہ اگلی آیت میں اس کا ذکر ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے
فَإِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔۔۔۔۔۔(البقرۃ:30)
واللہ اعلم بالصواب
ضیاء الرحمان عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2023/2/27/6/8/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:41