الجواب حامداً ومصلیاً
صورت مسؤلہ میں کوئی ایسا طریقہ اختیارکیا جائے جس میں یہ چارجز ادا نہ کرنے پڑیں لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مذکورہ معاملہ کرنے کی بھی گنجائش ہےیہ معاملہ سودی نہیں ہے کیونکہ یہ چارجز رقم وصولی کے ہیں ،نہ کہ قرض دینے والے کا ذاتی نفع۔
لما فی الشامیہ:(7/413،بیروت)
قولہ (کل قرض جر نفعا حرام) أی اذا کان مشروطا کما علم مما نقلہ عن البحر وعن الخلاصۃ وفی الذخیرۃ وان لم یکن النفع مشروطا فی القرض فعلی قول الکرخی لا بأس بہ
وفی الفح القدیر:(6/272،رشیدیہ)
وأجرۃ الکیال و وزان المبیع و ذراعہ و عادہ)ان کان البیع بشرط الکیل والوزن أو الذرع أو العد (علی البائع)لان علیہ إیفاء المبیع ولا یتحقق ذلک الا بکیلہ ووزنہ و نحوہ و أجرۃ وزان الثمن علی المشتری باتفاق الأمۃ الاربعۃ لانہ یحتاج الی تسلیم الثمن و تمییزہ عنہ فکانت مؤنتہ علیہ
وکذافی الھندیة:(3/202،رشیدیہ)
وکذافی حاشیة الطحطاوی علی الدر:(3/105،رشیدیہ)
وکذافی الفقہ الاسلامی وادلتہ:(5/3793،رشیدیہ)
وکذافی بدائع الصنائع:(4/40،رشیدیہ)
وکذافی البحرالرائق:(6/204،رشیدیہ
وکذافی المحیط البرھانی:(10/351،بیروت)
وکذافی الفقہ الحنفی:(4/220،طارق)
وکذافی الھدایہ:(3/45،بشری)
واللہ اعلم بالصواب
ضیاءالرحمان عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
5/2/2023/13/7/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:10