الجواب حامداً ومصلیاً
عام حالت میں تو اس طرح کا معاملہ جائز ہے،مگر خاص ان حالات میں جب مارکیٹ میں اس چیز کی قلت پیدا ہو جائےاور اس چیز کی قیمت میں نا قابل تحمل اضافہ ہونے لگے تو اس وقت یہ عمل ذخیرہ اندوذی کے زمرہ میں آئے گا جو کہ حدیث کی رو سے ایک قابل لعنت عمل ہے۔
لما فی الھدایہ:(3/113،رحمانیہ)
و من باع درھمین و دینارا بدرھم و دینارین جاز البیع
وفی الھندیة:(3/230،رشیدیہ)
اذا اشتری ذھبا بعشرۃ دراھم فباعہ بربح درھم جاز
وکذافی حاشیة الطحطاوی علی الدر:(3/95،رشیدیہ)
وکذافی مجع الانھر:(3/166،المنار)
وکذافی کنز الدقائق:(222،حقانیہ)
وکذافی بدائع الصنائع:(4/463،رشیدیہ)
وکذافی النھر الفائق:(3/535،قدیمی)
واللہ اعلم بالصواب
ضیاء الرحمان غفرلہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
20/3/2022/28/8/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:119