الجواب حامداً ومصلیاً
مذکورہ صورت حال میں بہنوں کا اپنا حصہ اس طرح بھائیوں کو دے دینا شرعا معتبر نہیں ہے،اس سے ان کا حق ختم نہ ہو گا،لہذا درج شدہ شرعی حصہ ان کو دے دیا جائےیا فریقین کی رضا مندی سے جو قیمت طے ہو وہ دے دی جائے۔
لہذا مذکورہ صورت میں مرحوم والد کی کل جائیداد کے 12حصے کر کے ہر بیٹے کو 2 حصے(٪16.666)اور ہر بیٹی کو 1 حصہ (٪8.333)دیا جائے۔
سوال میں مذکور½ 12 ایکڑ زمین میں سے ہر بیٹے کو 16 کنال 13.33مرلے اور ہر بیٹی کو 8کنال 6.66مرلے دیے جائیں۔لہذا مقررہ حصہ سے جو زائد حصہ بھائیوں کے پاس ہے وہ بہنوں کا حق ہے وہ انہیں دینا ضروری ہے۔
مزید تفصیل کے لئے نقشہ ملاحظہ فرمائیں ۔
نمبرشمار، ورثاء عددی حصہ، فیصدی حصہ، زمین سے ملنے والا حصہ
1 بیٹی 1 ٪8.3333 8کنال6.66 مرلے
2 بیٹی 1 ٪8.3333 8کنال6.66 مرلے
3 بیٹی 1 ٪3333.8 8کنال6.66 مرلے
4 بیٹی 1 ٪3333.8 8کنال6.66 مرلے
5 بیٹا 2 ٪6666.16 16کنال13.33مرلے
6 بیٹا 2 ٪6666.16 16کنال13.33مرلے
7 بیٹا 2 ٪6666.16 16کنال13.33مرلے
8 بیٹا 2 ٪6666.16 16کنال13.33مرلے
میزان 8 12 ٪9996.99 99کنال19.96مرلے
لما فی المحیط البرھانی:(23/288،داراحیاءتراث)
وان کان للمیت ابن،فانھا تصیر عصبۃ بہ،ویسقط اعتبار النصف والثلثین،ویقسم المال بینھم للذکر مثل حظ الانثیین
وفی الاشباہ والنظائر:(309،قدیمی)
“لو قال الوارث:ترکت حقی،لم یبطل حقہ،اذالملک لایبطل بالترک.”
وفی شرح الحموی علی الاشباہ والنظائر:(2/388،ادارہ القرآن)
قولہ:لو قال الوارث:”ترکت حقی الخ “اعلم ان الاعراض عن الملک،او حق الملک،ضابطہ انہ ان کان ملکا لازما لم یبطل بذالک کما لو مات عن ابنین،فقال احدھما:ترکت نصیبی من المیراث لم یبطل لانہ لازم لایترک بالترک بل ان کان عینا فلا بد من التملیک،وان کان دینافلا بد من البراء
وکذا فی القرآن المجید:(سورہ النساء:11) وکذا فی السراجی:(8،شرکت علمیہ)
وکذا فی الھندیہ:(6/448،رشیدیہ) وکذا فی القدوری:(291،الخلیل)
واللہ اعلم بالصواب
محمد سلیم اللہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
13/7/1440-2019/3/21
جلد نمبر:18 فتوی نمبر:54