الجواب باسم ملہم الصواب
اگر حکومت سعودیہ کی طرف سے اجازت ہو تو ٹھیک ہے ورنہ قانون کی پاسداری نہ کرنے کا گناہ ہو گا۔
لما فی القرآن المجید:(سورۃ النساء:59)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ} [النساء: 59]
وفی تفسیر المظہری:(2/143،رشیدیہ)
مسالۃ:وھذاالحکم وجوب اطاعۃ الامیر مختص بما لم یخالف امرہ الشرع یدل علیہ سیاق الآیۃ فان اللہ تعالی امر الناس بطاعۃ اولی الامر بعد ما امرھم بالعدل فی الحکم تنبیھا علی ان طاعتھم واجبۃ ما داموا علی العدل ونص علی ذالک فیما بعد: { فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ}الآیہ[النساء: 59].
وفی الصحیح للبخاری:(2/602،رحمانیہ)
عن عبد اللہ بن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:السمع والطاعۃ علی المرءالمسلم فیما احب وکرہ ما لم یؤمر بمعصیۃ فاذا امر بمعصیۃ فلاسمع ولا طاعۃ.”
وکذا فی الصحیح لمسلم :(2/133،رحمانیہ)
وکذا فی ھامش علی الصحیح لمسلم :(2/133،رحمانیہ)
واللہ اعلم بالصواب
محمد سلیم اللہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃالحسن ساہیوال
13/7/1440-2019/3/21
جلد نمبر:18 فتوی نمبر:39