سوال

پانی کی باری کوآگےکسی کو دینا یابیچنا کیساہے؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

معتد بہ مقدار میں پانی کا آنا یقینی ہو تو جائز ہے۔

لما فی بحوث فی قضایا فقھیة معاصرة:(1/92،معارف القرآن)
ثم ان السرخسی ذکر ھذہ المسألۃ مرۃ اخری فی کتاب الشرب بأبسط مما ھھنا وذکر فی الأخیر قول المشایخ المتأخرین الذین أجازوا بیع الشرب للعرف ولم ینتقد قولھم بشیء فقال:(وبعض المتأخرین من مشایخنا رحمھم اللہ أفتی أن یبیع الشرب وان لم یکن معہ أرض للعادۃالظاھرۃ فی بعض البلدان وھذہ عادۃ معروفۃ بنسف قالوا:المأجور الاستصناع للتعامل وان کان القیاس یأباہ فکذلک بیع الشرب بدون الارض )
وفی الشامیة:(7/277،رشیدیہ)
قولہ: (وکذا بیع الشرب)أی:فانہ یجوز تبعا للأرض بالاجماع ووحدہ فی روایۃ وھو اختیار مشایخ بلخ لانہ نصیب من الماء
وکذافی فتح القدیر:(6/393،رشیدیہ)
وکذافی الھندیة:(3/123،رشیدیہ)
وکذافی المبسوط:(14/136،بیروت)
وکذافی الفتاوی التاتارخانیة:(18/363،فاروقیہ)
وکذافی البحرالرائق:(8/397،رشیدیہ)
وکذافی النھر الفائق:(3/430،قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب
ضیاءالرحمان غفرلہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
22/2/2023/1/8/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:68

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔