سوال

ہمارا وطن اصلی بلوچستان ہے جبکہ اس وقت ہم لاہور میں مقیم ہیں اور ستائیسویں روزے کو بوقتِ دن دس یا گیارے بجے ہم نے وطن اصلی جانے کے لیے سفر پر نکلنا ہے۔ یہ سفر اگرچہ دن کو شروع کرنا ہے لیکن اس کا ارادہ اور تیاری رات ہی سے کی ہوئی ہے تو کیا اس دن ( جس میں ہم نے سفر پر نکلنا ہے ) ہم روزہ چھوڑ سکتے ہیں؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت اس مسافر کو حاصل ہوگی جو سحری کے وقت حالت سفر میں ہو، لہذا اگر سحری کے وقت ( روزہ بند ہونے )کے بعد سفر کرنے کا ارادہ ہو تو اس دن کا روزہ چھوڑنا جائز نہیں۔

لما فی الشامیة :(3/479،رشیدیہ)
ان السفر لا یبیح الفطر ، وانما یبیح عدم الشروع فی الصوم، فلو سافر بعد الفجر لا یحل الفطر ۔ قال فی البحر: وکذا لو نوی المسافر الصوم لیلا واصبح من غیر ان ان ینقض عزیمتہ قبل الفجر ثم اصبح صائما لایحل فطرہ فی ذالک الیوم۔ ولو افطر لا کفارۃ علیہ
وفی الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید :(1/437،طارق)
ولا یحل لہ ان یفطر فی الیوم الذی سافر فیہ اذا انشأ السفر بعد طلوع الفجر ای بعد بدءالصوم۔ لانہ شرع فی السفر بعد الصیام فیجب علیہ ان یتمہ، والسفر لا یبیح الفطر وانما یبیح عدم الشروع فی الصوم واذا افطر فعلیہ القضاءفقط
وکذافی الھندیة: (1 /206 ،رشیدیہ)
وکذافی الجوہرة النیرة:(1/343،قدیمی)
وکذافی البحرالرائق: (2 /492 ،رشیدیہ)
وکذافی المحیط البرھانی:(3/358،بیروت)
وکذافی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(3/1695،رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب
سید ممتاز شاہ بخاری
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2023/04/4/13/9/1444
جلد نمبر:29 فتوی نمبر:184

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔