الجواب حامداً ومصلیاً
شرعی نقطۂ نظر سے حیلۂ اسقاط کی حقیقت یہ ہے کہ کسی میت کے ذمے نمازوں اور روزوں کا فدیہ لازم ہے، اور اس نے ترکہ میں مال نہیں چھوڑا کہ جس سے فدیہ ادا ہوسکے، اس صورت میں فدیہ کی ادائیگی کا حیلہ یہ ہے کہ مجموعی فدیہ کی رقم کا اندازہ لگایا جائے، مثلاً چالیس ہزار روپے، اور کچھ رقم قرض لی جائے، مثلاً ایک ہزار روپے، اب اس ہزار روپے کا کسی فقیر کو اس نیت سے مالک بنادیا جائے اور قبضہ دےدیا جائے کہ یہ میت کے فدیہ کی رقم ہے، پھر وہ فقیر اپنی خوشی سے کسی دباؤ کے بغیر یہ ہزار روپے دینے والے کو ہبہ کردے اور قبضہ بھی دےدے، اب پہلا آدمی فقیر کو مذکورہ نیت کے ساتھ ہزار روپے کا بمع قبضہ مالک بنائے، فقیر حسبِ سابق رقم ہبہ کردے، اس طرح چالیس مرتبہ حقیقی طور پر ہزار روپے کے ہبہ کرنے اور مالک بنانے سے امید ہے کہ میت کا فدیہ ادا ہوجائے گا۔
لیکن مروجہ حیلۂ اسقاط چونکہ مندرجہ ذیل کئی مفاسد پر مشتمل ہے، اس لئے ناجائز ہے، اور اس کا چھوڑنا واجب و ضروری ہے: 1) جو قرآن اور نقد رقم دائرہ میں رکھی جاتی ہے وہ ورثہ کی اجازت کے بغیر میت کے ترکہ سے لی جاتی ہے۔ 2) اگر ورثہ میں کوئی یتیم ہوتو اس کا اجازت دینا معتبر نہیں ہے۔ 3) اگر سب ورثہ بالغ ہوں اور سب نے اجازت دےدی ہو تو بھی یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ اجازت طعنوں کے خوف اور رواج کے دباؤ میں آئے بغیر پوری خوش دلی سے دی گئی ہے۔ 4) اگر یہ سب باتیں نہ ہوں بلکہ کسی آدمی نے اپنی جیب سے رقم کا انتظام کردیا ہو تب بھی مروجہ حیلہ درست نہیں، کیونکہ جن لوگوں کو قرآن شریف اور نقد رقم دی جاتی ہے انہیں صحیح معنی میں مالک نہیں بنایاجاتا، اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ جس شخص کو رقم دی جاتی ہے اگر وہ اسے اپنے پاس رکھ لے اور دوسرے کو مالک نہ بنائے تو دینے والے اس کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ 5) یہ بھی ضروری ہے کہ جس شخص کو مالک بنایا جائے وہ زکوۃ کا مستحق ہو۔ 6) اگر اس کا بھی اہتمام کرلیاجائے تو آخر میں رقم جس کے پاس پہنچے گی وہ اس کامالک ہوگا، اس کی رضامندی کے بغیر آدھی رقم امام مسجد کو دینا اور آدھی رقم غرباء میں تقسیم کرنا حرام اور ناجائزہے۔
اگر بالفرض حیلۂ اسقاط مذکورہ تمام مفاسد سے خالی ہو تب بھی اس کو ہر میت کے لئے لازم و ضروری سمجھنا اور جو یہ حیلہ نہ کرے اس کو برا بھلا کہنا بجائے خود بدعت ہے، جس کا ناجائز ہونا حدیثِ پاک سے ثابت ہے۔
اللہ کریم ہم سب کو بدعات و رسومات سے بچ کر شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین۔
لما فی التنویر و الدر:(2/72-73،ط: ایچ ایم سعید)
و لومات و علیہ صلوات فائتۃ و اوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر . . .و انما یعطی من ثلث مالہ و لولم یترک مالا یستقرض وارثہ نصف صاع مثلاً و یدفعہ لفقیر ثم یدفعہ الفقیر للوارث ثم و ثم حتی یتم
وفی الھندیہ:(1/125،ط: رشیدیہ)
اذا مات الرجل و علیہ صلوات فائتۃ فاوصی بان تعطی کفارۃ صلواتہ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر . . .و ان لم یترک مالا یستقرض ورثتہ نصف صاع و یدفع الی مسکین ثم یتصدق المسکین علی بعض ورثتہ ثم یتصدق ثم و ثم حتی یتم لکل صلوۃ ماذکرنا
وفی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(2/1152،ط: رشیدیہ)
و تؤخذ الکفارۃ و فدیۃ الصوم من ثلث مال المتوفی فان لم یکن لہ مال یستقرض وارثہ نصف صاع مثلاً و یھبہ للفقیر، ثم یھبہ الفقیر لولی المیت و یقبضہ، ثم یدفعہ الولی للفقیر، فیسقط من الصلاۃ و الصوم بقدرہ، و ھکذا حتی یتم اسقاط ماکان علیہ من صلاۃ و صوم
وکذافی خلاصہ الفتاوی:(1/192،ط: رشیدیہ)
وکذا فی ھامش حاشیہ الطحطاوی علی الدر:(1/307-308،ط: رشیدیہ)
وکذا فی غنیہ المتملی:(535،ط: رشیدیہ)
وکذا فی الفتاوی الولوالجیہ:(1/88،ط: مکتبہ الحرمین الشریفین)
وکذا فی صحیح البخاری:(2/642،ط: رحمانیہ)
وکذا فی سنن ابی داود:(2/290،ط: رحمانیہ)
وکذا فی مشکوہ المصابیح:(1/261،ط: رحمانیہ)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد زکریا غفرلہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
8/8/1442/2021/3/23
جلد نمبر:24 فتوی نمبر:54