الجواب باسم ملہم الصواب
نمازوں میں احتیاط اس میں ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرتے ہوئے 3دن رات کی نمازیں لوٹائی جائیں،اور باقی چیزوں کے بارے صاحبین رحمہم اللہ کے قول پر عمل کرتے ہوئے علم ہونے کے وقت سے نجاست کا حکم لگایا جائے گا ،اور جن لوگوں کو اطلاع کرنا ممکن نہیں ہے ان کی نماز ہو جائے گی۔
لما فی تنویرالابصار وشرحہ:(1/420،رشیدیہ)
ومذ ثلاثۃ ایام )بلیالیھا(ان انتفخ او تفسخ )استحسانا.وقالا:من وقت العلم فلایلزمھم شیئ قبلہ ، قیل: وبہ یفتی.
وفی ردالمحتارلابن عابدین رحمہ اللہ :(1/419،420،رشیدیہ)
اشار”فی الدرر“الی ان ما قالہ الزیلعی ملفق من قول الامام وقولھما حیث قال بعد نقلہ کلام الزیلعی:یؤیدہ ما قال فی”معراج الدرایۃ“ ان الصباغی کان یفتی بھذا انتھی:ای بھذا التفصیل ، قال فی البحر:کان الصباغی یفتی بقول ابی حنیفۃ فیما یتعلق بالصلاۃ وبقولھما فیما سواہ ، کذا فی”معراج الدرایۃ“………وصرح فی البدائع بان قولھما قیاس ،وقولہ استحسان ،وھو الاحوط فی العبادات
وکذا فی البحر الرائق:(1/220،رشیدیہ) وکذا فی مجمع الانھر:(1/54،المنار)
وکذا فی اللباب:(1/50،قدیمی) وکذا فی الھندیہ:(1/20،رشیدیہ)
وکذا فی الدرالمنتقی علی مجمع الانھر:(1/53،المنار) وکذا فی الھدایہ:(1/47،رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب
محمد سلیم اللہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃالحسن ساہیوال
17/9/1440-2019/5/23
جلد نمبر:19 فتوی نمبر:70