سوال

کعب احبار کا تعارف کیا ہے؟کیا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسلمان ہو گئے تھے ؟کیا وہ منافقین کے ساتھ خفیہ طور پر شامل رہتے تھے؟کیا اسرائیلی روایات کے یہی ذمہ دار ہیں؟ایک صاحب (جو کہ صاحب علم مانے جاتے ہیں) نے یہ سب باتیں کی ہیں،براہ کرم ان سوالات اور ان جیسے دیگر سوالات کا تسلی بخش جواب مرحمت فرما دیں

جواب

الجواب باسم ملہم الصواب

شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ العالی اپنی کتاب ”علوم القرآن“میں ”کعب احبار“کا تعارف اس طرح تحریر فرماتے ہیں:
”کعب الاحبار کا پورا نام کعب بن ماتع حمیری ہے،اور وہ کعب الاحبار یا کعب الحبر کے لقب سے مشہور ہیں،یہ یمن کے باشندے تھے،اور انہیں علمائے یہود میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا،انہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں کا زمانہ پایا ہے،لیکن سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں مشرف باسلام نہ ہوسکے،12ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے دوران یہ مدینہ طیبہ آئے اور مسلمان ہوگئے،طبقات ابن سعد میں روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ ”تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیوں اسلام نہیں لائے؟اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے باپ نے مجھے تورات کا ایک نسخہ لکھ کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس پر عمل کرتے رہو ،اور تورات کے علاوہ جتنی کتابیں تھیں انہیں بند کر کے اس پر مہریں لگا دی تھیں،تاکہ میں ان کا مطالعہ نہ کروں،اور ساتھ ہی مجھ سے اپننے رشتہ ابوّت کا واسطہ دے کر یہ عہد لیا تھا کہ میں یہ مہریں نہ توڑوں،لیکن جب دین اسلام دنیا میں غالب ہونے لگا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ کہیں میرے باپ نے مجھ سے کوئی علم چھپانے کی کوشش نہ کی ہو،چنانچہ میں نے ان کتابوں کی مہر توڑ دی اور ان کا مطالعہ کیا ،تو اس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کا تذکرہ مجھے ملا ،اس لیے میں اب مسلمان ہو کر آیا ہوں۔“
کعب الاحبار رحمہ اللہ کو عام طور سے ثقہ قرار دیا گیا ہے،لیکن علامہ کوثری رحمۃ اللہ علیہ نے بعض روایات کی بناءپر ان کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات کا بھی اظہار کیا ہے،مثلا یہ واقعہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد اقصی تعمیر کرنے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں سے مشورہ کیا کہ”مسجد کو صخرہ بیت المقدس کے آگے تعمیر کیا جائے یا پیچھے؟اس پر کعب الاحبار رحمہ اللہ نے مشورہ دیا کہ مسجد صخرہ کے پیچھے بنائی جائے،یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :یہودی عورت کے بیٹے !تم پر یہودیت کا ابھی تک اثرہے، میں تو مسجد کو صخرہ کے آگے بناؤں گا،تاکہ نماز میں صخرہ کا استقبال نہ کیا جائے ۔“علامہ زاہد کوثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد کعب احبار کے ذہن میں حضرت عمر رضی اللہ کے بارے میں کچھ رنجش رہی،یہاں تک کہ ان کا میل جول ایسے لوگوں کے ساتھ بھی دیکھا گیا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کی سازش میں ملوث تھے،اور اس سے پہلے وہ اہل کتاب کی بعض کتابوں کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ تنبیہ کر چکے تھے کہ آپ کو کسی وقت قتل کیا جائے گا،ان تمام واقعات کو نقل کرنے بعد علامہ کوثری لکھتے ہیں:
”ان بکھرے ہوئے واقعات کو ملانے سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ،حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ،حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ،حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کعب الاحبار پر پورابھروسہ نہیں کرتے تھے۔“
علامہ کوثری رحمہ اللہ نے کعب الاحبار پر جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے،اور مختلف صحابہ کرام کے اقوال کے جو نتائج نکالے ہیں ان سے اختلاف کی گنجائش ہے،(مصر کے محقق عالم ڈاکٹر رمزی نعناعہ نے ان شکوک وشبہات کی مفصل ومدلل تردید کی ہے)لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ ان کی بیشتر روایات اسرائیلی روایات ہیں،لہذا جب تک ان کی تصدیق خارجی دلائل سے نہ ہو جائے اس وقت تک ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ (علوم القرآن:348،349،دارالعلوم کراچی)

 

واللہ اعلم بالصواب
محمد سلیم اللہ عفی عنہ
دارالافتاءجامعۃالحسن ساہیوال
27/7/1440-2019/4/4
جلد نمبر:18 فتوی نمبر:131

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔