سوال

ایک آدمی کسی دکاندار سے کوئی سامان خریدنے جاتا ہے جو اس کے پاس موجود نہیں ہوتا ،یہ اس کو ایک اور دکاندار کے پاس بھیجتا ہے کہ وہ چیز فلاں دکاندار کے پاس ہے۔اور پہلا دکاندار دوسرے سے اس بات کا کمیشن طے کرتا ہے کہ میں آپ کے پاس گاہک بھیجا کروں گا،تو کیا اس کا یہ کمیشن لینا درست ہے؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

صرف گاہک کی راہنمائی کرنے کی وجہ سے کمیشن کا مستحق نہ ہو گا،جب تک کہ کوئی عملی اقدام نہ کرے،مثلا اس گاہک کو دکان تک لے جائے۔

لمافی المحیط البرھانی:(11/352،داراحیاءتراث)
وفی نوادر ابن سماعۃ:عن ابی یوسف رحمہ اللہ: رجل ضل شیئا، فقال:من دلنی علیہ فلہ درھم،فدلہ انسان فلاشیئ لہ،لان الدلالۃوالاشارۃلیست بعمل یستحق بہ الاجر، ولوقال لانسان بعینہ :ان دللتنی علیہ فلک درھم،فان دلہ من غیر مشی معہ،فکذالک الجواب لایستحق بہ الاجر،وان مشی معہ ودلہ فلہ اجر مثلہ،لان ھذا عمل یقابل بالاجرعرفاوعادۃ،الاانہ غیرمقدر،ففسدالعقد،ووجب بہ اجرالمثل
وفی الفقہ الحنفی:(4/410،الطارق)
“فللاجیر المشترک ان یتقبل العمل من اشخاص،لان المعقودعلیہ فی حقہ ھوالعمل او اثرہ.
وکذا فی التاتارخانیہ:(15/138،فاروقیہ)
وکذا فی تنویرالابصارعلی ردالمحتار:(9/107،108،رشیدیہ)
وکذا فی الفقہ الاسلامی:(5/3847،رشیدیہ)
وکذا فی حاشیہ الطحطاوی علی الدر:(4/35،رشیدیہ)
وکذا فی الھندیہ:(4/500،رشیدیہ)
وکذا فی البحرالرائق:(8/47،رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب
محمد سلیم اللہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
10/8/1440-2019/4/16
جلد نمبر:19 فتوی نمبر:34

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔