سوال

! ایک شخص نے ٹرین میں اپنے اندازے سے قبلہ کی سمت سمجھ کر فرض نماز پڑھ لی ،کچھ سفر کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ رخ کافی پھراہوا تھا ،تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

الجواب حامداومصلیا

اگر نماز پڑھنے سے پہلے سمت معلوم کرنے میں اس نے پوری توانائی خرچ کی ہے ،مثلا وہاں پر کوئی واقف حال شخص موجود تھا اس سے پوچھ کر یا مساجد کا رخ نظر آرہا تھاان کو دیکھ کر یا بآسانی موبائل وغیرہ کے ذریعے قبلہ کی سمت معلوم کر کے یا اگر ان میں سے کوئی بھی صورت ممکن نہیں تھی ،تو پھر اچھی طرح سوچ و بچار کر کے قبلہ کا اندازہ لگا کر نماز پڑھی ہے ،تو نماز ہو گئی ،لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے،ورنہ وہ نماز لوٹانا پڑھے گی۔

لما فی الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید:(1/197،الطارق)
ویستدل علی القبلۃ برؤیۃ محاریب المسجد فإن لم توجد فبسؤال من یعلم با لقبلۃ ممن تقبل شھادتہ من أھل ذلک المکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وإذا کان فی صحراءأو بحر یستعین لمعرفۃ القبلۃ بالنجوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔أو یستعین بالآلات الموضوعۃ لذلک وان لم یجد وسیلۃ لمعرفۃ القبلۃ یجتھد ویصلی إلی الجھۃ التی أداہ إلی أنھا ھی القبلۃ فإن علم أنہ أخطأ فی اجتھادہ بعد ماصلی فلا إعادۃ علیہ۔
وکذا فی الفقہ الاسلامی وادلتہ:(1/759،رشیدیہ)
یجب التحری والإجتھاد فی القبلۃ أی بذل المجھود لنیل المقصود بالدلائل علی من کان عاجزاً عن معرفۃ القبلۃ واشتبھت علیہ جھتھا ولم یجد أحداثقۃ یخبرہ بھاعن علم أی یقین و مشاھدۃ لعینھا فمن وجدہ اتبعہ ۔۔۔۔۔۔ومن لم یجد ثقۃ یقلد اعتمد علی الدلائل کا لفجر والشفق والشمس و القطب وغیرہ من الکواکب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تیقن الخطأ فی إجتھادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔إن کان بعد الصلاۃ صلی الصلاۃ القادمۃ ولا إعادۃ علیہ لما مضی لإتیانہ بما فی وسعہ
وکذا فی التنویر والدر:(2/138،رشیدیہ)
وکذا فی الشامیة:(2/140،رشیدیہ)
وکذا فی الھندیة:(1/64،رشیدیہ)
وکذا فی البحرالرائق:(1/499،رشیدیہ)
وکذا فی الموسوعة الفقہیة:(4/71،رشیدیہ)
وکذا فی بدائع الصنائع:(1/309،رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب
کتبہ محمد انیس غفر لہ ولوالدیہ
متخصص جامعۃالحسن ساہیوال
15،9،1443/22،4،17
جلد نمبر:27 فتوی نمبر:139

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔