الجواب حامداً ومصلیاً
تفسیر، حدیث اور تاریخ کی مختلف کتب میں یہ واقعہ متعدد طرق و اسناد سے مروی ہے۔ محدثین نے اگرچہ بعض طرق کو منکر اور ضعیف قرار دیا ہے ،مگر یہ واقعہ بعض دوسرے طرق سے بھی مروی ہے ،ان طرق و اسناد پر محدثین نے کسی قسم کے ضعف کا حکم نہیں لگایا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ درست اور ثابت ہے۔
چنانچہ احادیث مبارکہ کی مشہور کتاب ”مشکوۃ المصابیح“ میں یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،اس کے الفاظ درج ذیل ہیں
”عن عمرذكر عنده أبو بكر فبكى وقال: وددت أن عملي كله مثل عمله يوما واحدا من أيامه وليلة واحدة من لياليه أما ليلته فليلة سار مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الغار فلما انتهينا إليه قال: والله لا تدخله حتى أدخل قبلك فإن كان فيه شيء أصابني دونك فدخل فكسحه ووجد في جانبه ثقبا فشق إزاره وسدها به وبقي منها اثنان فألقمها رجليه ثم قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم ادخل فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم و وضع رأسه في حجره ونام فلدغ أبو بكر في رجله من الجحر ولم يتحرك مخافة أن ينتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم فسقطت دموعه على وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما لك يا أبا بكر؟ قال: لدغت فداك أبي وأمي فتفل رسول الله صلى الله عليه وسلم فذهب ما يجده“ (مشکوۃ المصابیح:2/564،رحمانیہ)
ترجمہ:”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر چھیڑا گیا تو وہ رونے لگے اور پھر بولے مجھ کو آرزو ہے کہ کاش! میری پوری زندگی کے اعمال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صرف اس ایک دن کے عمل کے برابر ہوجاتے جو آپ ﷺ کے زمانہ حیات کے دنوں میں سے ایک دن تھا اور ان کی اس ایک رات کے عمل کے برابر ہو جاتے جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات کی راتوں میں سے ایک رات تھی، یہ ان کی اس رات کا ذکر ہے جس میں وہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے اور غار ثور ان کی پہلے منزل بنا تھا ، جب آنحضرت ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اس غار پر پہنچے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: خدا کے واسطے آپ اس غار میں ابھی داخل نہ ہوں ، پہلے میں اندر جاتا ہوں تاکہ اگر اس میں کوئی موذی چیز ہو اور وہ ضرر پہنچائے تو مجھ کو ضرر پہنچائے نہ کہ آپکو۔ یہ کہہ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غار میں داخل ہوگئے اور اس کو صاف کیا ۔ انہوں نے غار کے ایک کونے میں کئی سوراخ بھی دیکھےان میں سے بیشتر سوراخوں کو انہوں نے اپنے تہمند سے چیتھڑے پھاڑ کر بند کردیا اور جو دو سوراخ باقی رہ گئے تھے ان کے منہ میں وہ اپنے دونوں پاؤں اڑا کر بیٹھ گئے ۔پھر انہوں نےرسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ اب اندر تشریف لے آئیے ، چنانچہ رسول کریم ﷺ غار میں داخل ہوئے اور اپنا سر مبارک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی گود میں رکھ کر سو گئے اسی دوران ایک سوراخ کے اندر سے سانپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاؤں میں کاٹ لیا ،لیکن آپ نے اس ڈر سے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کی کہ کہیں رسول کریم ﷺ جاگ نہ جائیں ۔آخر کار ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل گئے اور رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر گرے ۔ آپ نے پوچھا ابوبکر یہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے کسی زہریلے جانور نے کاٹ لیا ہے ۔ آپ ﷺ نے اپنا مبارک لعاب دہن ٹپکا دیا اور جو کیفیت ان کو محسوس ہو رہی تھی وہ فوراً جاتی رہی۔“ ( توضیحات:8/379،العربیہ) استاذ المحدثین حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی علیہ الرحمۃ ”سیرت مصطفی“ میں فرماتے ہیں
”غار ثور میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو سانپ نے ڈس لیا تھا تو آپ ﷺ نے لعاب دہن لگا دیا ، اسی وقت شفاء ہوگئی۔“
(سیرت المصطفی:3/486،الحسن)
اسی طرح یہ واقعہ بعض دیگر معتبر کتب میں بھی موجود ہے۔
لما فی فی تفسیر الخازن :(2/240،رشیدیہ)
روي عن عمر بن الخطاب أنه ذكر عنده أبو بكر فقال: وددت أن عملي كله مثل عمله يوما واحدا من أيامه وليلة واحدة من لياليه أما فليلته ليلة سار مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الغار فلما انتهيا إليه قال والله لا تدخله حتى أدخله قبلك فإن كان فيه شيء أصابني دونك فدخله فكنسه ووجد في جانبه ثقبا فشق إزاره وسدها به وبقي منهما ثقبان فألقمهما رجليه ثم قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم ادخل فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع رأسه في حجره ونام فلدغ أبو بكر في رجله من الجحر ولم يتحرك مخافة أن ينتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم فسقطت دموعه على وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: مالك يا أبا بكر فقال: لدغت فداك أبي وأمي فتفل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فذهب ما يجده
وکذافی تفسیر المظھری:(3/290،رشیدیہ)
وکذافی روح المعانی للعلامة آلوسی رحمہ اللہ:(10/98،داراحیاء تراث)
وکذافی سبل الھدی و الرشاد:(3/240،نعمانیہ)
وکذافی کنز العمال:(12/222،رحمانیہ)
وکذافی دلائل النبوة للبیھقی:(2/476،بیروت)
وکذافی سیر أعلام النبلاء:(1/224،دارالفکر)
وکذافی البدایة و النھایة:(3/142،دارالکتب العلمیة)
واللہ اعلم بالصواب
فرخ عثمان غفرلہ ولوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
1/8/1442/2021/3/16
جلد نمبر:24 فتوی نمبر:5