الجواب حامداً ومصلیاً
اگر یہ معاملہ کسی سرکاری بینک سے کیا گیا ہے تو یہ زائد رقم سرکاری خزانہ کی امانت ہے، لہٰذا اسے بینک کو واپس کرنےکی مزید کوشش کی جائے اور اس مقصد کےلیے بینک کے کسی آدمی سے راہنمائی لی جا سکتی ہے۔ اگر اس بینک کو واپسی نہ ہوسکے تو کسی دوسرے ذریعہ سے سرکاری خزانہ تک یہ رقم پہنچادی جائے۔
اور اگر یہ معاملہ کسی پرائیویٹ بینک سے کیا گیا ہے تو بھی یہ رقم اس بینک کی ملکیت ہے، اسی کو واپس کرنا ضروری ہے، تاہم اگر دونوں صورتوں میں واپسی کی کوئی صورت نہ بن سکے تو پھر یہ رقم بینک کی طرف سے فقراء پر خرچ کی جا سکتی ہے، لہٰذا مذکورہ شخص کا داماد اگر مستحق ہو تو اس پر بھی یہ رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔
لما فی البحر الرائق:(8/198،رشیدیہ)
قال رحمه الله:(ويجب رد عينه في مكان غصبه) لقوله عليه الصلاة والسلام :على اليد ما أخذت حتى ترد أي على صاحب اليد ولقوله عليه الصلاة والسلام لا يحل لأحد أن يأخذ مال أخيه لاعبًا ولا جادا وإن أخذه فليرده عليه
وفیہ ایضاً:(8/369،رشیدیہ)
ويردونه على أربابه إن عرفوهم، وإلا يتصدقوا به لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد
وکذافی الشامیة:(9/635،رشیدیہ) وکذافی التنویر مع الدر المختار:(6/434،رشیدیہ
وکذافی الھندیة:(5/349،رشیدیہ) وکذافی التاتارخانیہ:(18/158،فاروقیہ)
وکذافی الموسوعة الفقھیة:(34/245،علوم اسلامیہ) وکذافی المحیط البرھانی:(8/63،بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ فرخ عثمان غفرلہ ولوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
2/6/1442/2021/1/16
جلد نمبر:22 فتوی نمبر:161