سوال

ایک آدمی گنے کا کاروبار اس طرح کرتا ہے کہ روڈ پر کھڑی ٹرالی کا سودا کرتا ہے ۔ گنے کے مالک سے کہتا ہے کہ اس ٹرالی کا جو وزن مِل میں جا کر کانٹے پر ہوگا اس کی رسید ملتے ہی میں آپ کو اس کی قیمت فی من پانچ روپے کم پر ادا کر دونگا ۔ پھر وہ اپنے نام کا ایڈنٹ لے لیتا ہے ،یعنی گنا اس کے نام پر مِل جاتا ہے پھر یہ مِل کی پالیسی کے مطابق پانچ یا دس دن بعد پیسے مِل سے لے لیتا ہے ۔ پوچھنا یہ ہے کہ بظاہر تو وہ نقد رقم کی چیز لے کر ادھار بیچ رہا ہے ، جبکہ وہ گنے کی ٹرالی کو دیکھتا ہے، لیکن اس کی نگرانی نہیں کرتا مِل تک لے جانے کی۔ اس طرح جب عقد کرتے ہیں تو مبیعہ کے ساتھ ساتھ ثمن بھی مجہول ہوتا ہے ، کیونکہ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کتنا گنا اور کتنے پیسے ہیں۔ یہ صورت شرعا درست ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو جواز کی صورت کیا ہے؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

صورت مسئولہ میں اگر مالک سے بات کرنے کے بعد یہ شخص مبیع کے نفع نقصان کا ذمہ دار بنتا ہے یعنی ضمان قبول کرتا ہے تو یہ عقد جائز ہے اور مبیع و ثمن کی جہالت بھی مضر نہیں ہے، کیونکہ وزن ہوتے ہی یہ جہالت ختم ہوجائے گی اس لیے جہالت مفضی الی النزاع نہیں ہوگی۔
اگر یہ شخص ضمان قبول نہیں کرتا تو یہ عقد صرف وعدہ بیع ہوگا۔ جب گنے کا وزن ہوجائے گا تب یہ دونوں دوبارہ ایجاب و قبول کرکے عقد کریں گے اور اس کےلیے خریدار خود وہاں موجود ہو یا اس کا کوئی وکیل موجود ہو۔

لما فی فتح القدیر:(6/248،251،رشیدیہ)
قوله (ومن باع صبرة طعام كل قفيز بدرهم جاز البيع في قفيز واحد عند أبي حنيفة رحمه الله )…وقال أبو يوسف ومحمد: صح البيع في الكل وهو قول الأئمة الثلاثة …لھما أن ھذہ الجھالۃ بیدھما إزالتھا بأن یکیلا فی المجلس والجھالۃ التی ھی کذلک لاتفضی الی المنازعۃ …ثم قال الفقیہ: والفتوی علی قولھما تیسیرا للأمرعلی الناس
وکذافی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(5/3346،رشیدیہ)
وکذافی فتح القدیر:(6/412،رشیدیہ)
وکذافی الھدایة:(3/23،رحمانیہ)
وکذافی البحر الرائق:(5/476،رشیدیہ)
وکذافی فقہ البیوع:(1/93،معارف القرآن)

واللہ اعلم بالصواب
فرخ عثمان غفرلہ ولوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
17/7/1442/2021/3/3
جلد نمبر:23 فتوی نمبر: 152

شیئر/ پرنٹ کریں

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔