سوال

ایک آدمی نے کسی سے قرض لینا تھا۔جب مقروض اس کو ملا تو اس نے مقروض سے کہا کہ قرض دو۔ مقروض نے کہا ٹھیک ہے،میں دیتا ہوں۔مقروض کے پاس اس وقت موٹرسائیکل تھی۔قرض خواہ نے پوچھا کہ اس کی کتنی قیمت ہے؟ مقروض نے کہا:”تقریبا 20 ہزار“قرض خواہ نے وہ موٹرساہیکل قبضہ میں لی اور کہا کہ یہ میں نے اس قرض کے بدلہ خرید لی۔پھر قرض خواہ نے وہی موٹر سائیکل مقروض کو 25ہزار کے عوض ایک سال کی قسطوں پر فروخت کر دی۔کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی سے 30 ہزار روپے قرض لینا تھا۔ اب قرض خواہ مقروض کے پاس گیا تو اس کے ہاں 30ہزار سے زائد مالیت کی موٹرسائیکل کھڑی تھی۔ قرض خواہ اسے ہی اپنے قرض کے بدلےلے آیا اور پھر اسی مقروض کو 45ہزار کے عوض قسطوں پر فروخت کردی تو کیا حکم ہے؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

دونوں صورتوں میں یہ خریدوفروخت درست ہے،بشرطیکہ ان باتوں کا لحاظ رکھا جائے:(1)قرض کے بدلے میں موٹرسائیکل خریدنا اور پھر اس کو بیچنا فریقین کی دلی رضامندی سے ہو اور خریدتے وقت دوبارہ بیچنے کی شرط بھی نہ لگائی جائے۔(2)ان معاملات کو مستقل اور حیلہ سود کے طور پر اختیار نہ کیا جائے۔

لما فی الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید:(4/15،الطارق)
 شروط البیع… فی العاقد وھو ان یکون عاقلا ممیزا راضیا لقولہ تعالی: یٰآیھا الذین آمنوا لاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا أن تکون تجٰرۃ عن تراض منکم
وفیہ ایضاً:(4/30،الطارق)
عن ابن عمر قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول: اذا ضمن الناس بالدینار و الدرھم وتبایعوا بالعینۃ… انزل اللہ بھم ذلاً …فی ھذا الحدیث دلالۃ علی کراھۃ العینۃ و لکن لم یقع تفسیرھا فی الحدیث و قد فسر فی أثر ابن عباس بأن یبیع الرجل حریرۃ بمائۃ ثم یشتریھا بخمسین و ھذا غیر جائز عندنا ان کان البیع الثانی قبل نقد الثمن فان کان بعد نقد الثمن فان کان البیع الاول مشروطا بالبیع الثانی فھو غیر جائز ایضا لعدم جواز البیعتین فی بیعۃ و ان لم یکن مشروطا فھو مکروہ لانہ مضطر… و الوجہ فیہ ان فیہ بخلا مذموما و ترکا للمبرۃ و الاحسان
وفی الدر المختار:(7/415،رشیدیہ)
شراء الشیٔ الیسیر بثمن غال لحاجۃ القرض یجوز و یکرہ
وکذافی فقہ البیوع:(1/27،547،558،معارف القرآن) وکذافی الھدایة:(3/57،رحمانیہ)
وکذافی الشامیہ:(7/415،رشیدیہ) وکذافی البنایة:(7/229،رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب
فرخ عثمان غفرلہ ولوالدیہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
19/6/1442/2021/2/2
جلد نمبر:23 فتوی نمبر:81

شیئر/ پرنٹ کریں

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔