سوال

ایک آدمی کو وراثت میں زمین اور کچھ دیگر سامان ملا ہے۔ اس میں اس کے چچازاد بھائی بھی شریک ہیں ۔ اب اس زمین اور سامان پر ان چچازاد بھائیوں کا ہی قبضہ ہے۔ اس آدمی کو زمین اور اس کی پیداوار میں کسی قسم کے تصرف کا کوئی اختیار نہیں ہے،نہ ہی کاغذات میں زمین کا انتقال اس آدمی کی طرف ہوا ہے،البتہ ایک ثالث نے اس کے حق میں فیصلہ کیا ہے،مگر اس پر بھی عمل درآمدنہیں ہوا۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس آدمی پر اس زمین ،اس کی پیداوار اور دیگر سامان کی زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟ اور کیا ایسا شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

صورت مسئولہ میں مذکورہ زمین اور اس کی پیداوار وغیرہ کی زکوۃ اس مذکورہ شخص پر واجب نہیں ہے۔
مذکورہ شخص کے پاس اس مقبوضہ زمین اور اس کی پیداوار وغیرہ کے علاوہ اگر سونا،چاندی، مال تجارت اور ضرورت سے زائد دیگر سامان یا ان میں سے کوئی ایک یا متعدد اشیاء ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہے تو یہ شخص زکوۃ لینے کا حق دار نہیں ہے اور اگر اس سے کم مالیت کا مالک ہے تو زکوۃ وصول کرسکتا ہے۔

لما فی الموسوعة الفقھیة:(23/237،علوم اسلامیة)
الشرط الثانی أن یکون ملکیۃ المال مطلقۃ….و ھو ما کان فی ید مالکہ ینتفع بہ و یتصرف فیہ
وفیہ ایضاً:(23/314،علوم اسلامیة)
من ملک نصابا من أی مال زکوی کان فھو غنی فلا یجوز أن تدفع الیہ الزکاۃ…. و من لم یملک نصابا کاملا فھو فقیر أو مسکین فیجوز أن تدفع الیہ الزکوۃ
وفی الفقہ الاسلامی و ادلتہ:(3/1800،رشیدیة)
أن یکون مملوکا فی الید أی مقبوضا ، فلو ملک شیئاً و لم یقبضہ کصداق المرأۃ قبل قبضہ فلا زکوۃ علیھا فیہ و لا زکوۃ فی المال الضمار :و ھو کل مال غیر مقدور الانتفاع بہ مع قیام اصل الملک
وکذافی الموسوعة الفقھیة:(23/237،علوم اسلامیہ)
وکذافی الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید:(1/357،الطارق)
وکذافی البحر الرائق:(2/362،رشیدیہ)
وکذافی بدائع الصنائع:(2/88،رشیدیہ)
وکذافی الھندیة:(1/174،رشیدیہ)
وکذافی التنویر مع الدر المختار:(3/219،رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب
فرخ عثمان عفی اللہ عنہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
27/6/1442/2021/2/10
جلد نمبر:23 فتوی نمبر:146

شیئر/ پرنٹ کریں

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔