سوال

ایک آدمی کے داماد نے کچھ سال پہلے اس کی بیٹی کو زبانی طور پر تین طلاقیں دےدی تھیں ،پھر غیر مقلدین سے فتویٰ لے کر رجوع کر لیا تھا ،پھر وہ اکٹھے رہنے لگے، اب اس واقعہ کے بعد پھر معاملات خراب ہوگئےتو اس بار اس نے عدالت سے اسٹام پر تینوں طلاقوں کو تحریر کرادیا ، جس کی تفصیل ساتھ لف ہے ،اب وہ داماد دوبارہ رجوع کا کہہ رہا ہے ، آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ آیا اب دوبارہ اس طلاق نامے سے رجوع کر سکتا ہے ؟یا اس کی کیا صورت ہوگی ۔

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

صورتِ مسئولہ اگر واقعہ کے مطابق ہے تو جب پہلی دفعہ اس کے داماد نے اس کی بیٹی کو تین طلاقیں دی تھیں ، اسی وقت سے وہ اپنے شوہر پر حرام ہو گئی تھی،اس کے بعد ان دونوں کا اکٹھے رہنا حرام اور سخت گناہ ہے،لہٰذا سابقہ گناہ پر توبہ وا ستغفار کریں۔
واضح رہے کہ احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں ایک ہی مجلس کی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں ،اس پر متعدد مرفوع احادیث موجود ہیں

(1)

چنانچہ صحاح ستہ میں سے ”ابوداؤد شریف“ میں حضرت عویمر عجلانی کا واقعہ ہے کہ انہوں نے حضورﷺ کے سامنے تین طلاقیں دی تھیں تو حضورﷺ نے اس کو نافذ فرمایا

“عن سهل بن سعد، في هذا الخبر، قال: فطلقها ثلاث تطليقات عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأنفذه رسول الله صلى الله عليه وسلم” (سنن ابی داؤد:2/140،دار الکتب)

ترجمہ: حضرت سھل بن سعد سے اس خبر (حضرت عویمر عجلانی کے واقعہ لعان) کے بارے میں مروی ہے کہ حضرت عویمر عجلانی نے حضورﷺ کے سامنے تین طلاقیں دی تھیں تو حضورﷺ نے اس کو نافذ فرمایا ۔

(2)

”سنن دارِ قطنی “ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسن بن علی نے اپنی بیوی کو فرمادیا تھا ”اذھبی فانت طالق“(جا تجھے تین طلاق) عدت گزرنے کے بعد آپ نے اپنی مطلقہ کو کچھ ہدیہ بھیجا اس خاتون نے کہا ”متاع قلیل من حبیب مفارق“(آپ سے جدائی کے بدلے میں یہ بہت تھوڑا ہے) اور وہ چیز قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔جب یہ بات حضرت حسن کو معلوم ہوئی آپ رونے لگےاور فرمایا

: لولا أني سمعت جدي أو حدثني أبي أنه سمع جدي يقول: «أيما رجل طلق امرأته ثلاثا مبهمة أو ثلاثا عند الإقراء لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره» لراجعتها” (سنن الدارقطني (4/ 20،دار الکتب)

ترجمہ: اگر میں نے اپنے نانا(حضورﷺ) سے یہ بات نہ سنی ہوتی کہ”جس شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی دفعہ تین طلاقین دے دی ہوں یا تین طہروں میں تین طلاقین دے دی ہوں تو وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے“تو میں اس سے رجوع کر لیتا۔

(3)

حضرت عبداللہ بن عمر نے حالتِ حیض میں اپنی کو طلاق دے دی ، حضورﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺ نےرجوع کا حکم دیا اس موقع پر حضرت عبداللہ بن عمر نے دریافت کیا۔

یا رسول اللہ :افرأیت لو انی طلقتہا ثلاثا کان یحل لی ان اراجعہا ؟ قال: تبین منک وتکون معصیة
(السنن الکبری للبیہقی:7/546،دارالکتب)

ترجمہ:اے اللہ کے رسولﷺ آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگر میں تین طلاقین دے دیتا تو میرے لئے رجوع حلال تھا ؟ حضورﷺ نے فرمایا :نہیں وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اور گناہ بھی ہوتا ۔

(4)

أن حفص بن المغيرة طلق امرأته فاطمة بنت قيس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث تطليقات في كلمة واحدة فأبانها منه النبي صلى الله عليه وسلم (سنن الدار قطنی:4/10،دارالکتب)

ترجمہ:حضرت حفص بن مغیرہ نے حضورﷺ کے زمانے میں اپنی بیوی کو ایک کلمہ سے تین طلاقیں دیں ،تو آپﷺ نے ان کی بیوی کو ان سے جدا کردیا۔

(5)

بیہقی“ اور ”مصنف بن ابی شیبہ“میں حضرت علی کا فیصلہ موجود ہے

جاء رجل الی علی فقال طلقت امرأتی الفا قال ثلاث تحرمہا علیک واقسم سائرہا بین نسائک
(السنن الکبری للبیہقی:7/548،دارالکتب، مصنف ابن ابی شیبہ:4/63، دارالکتب)

ترجمہ: ایک آدمی حضرت علی کے پاس آکر کہنے لگا میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دی ہیں ،آپ نے فرمایا تین طلاق سےتیری بیوی تجھ پر حرام ہو گئی اور باقی طلاقیں اپنی عورتوں میں تقسیم کردے۔

(6)

ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں حضرت عمران بن حصین کا فیصلہ ملاحظہ ہو

سئل عمران بن حصین عن رجل طلق امرأتہ ثلاثا فی مجلس قال اثم بربہ وحرمت علیہ امرأتہ(مصنف بن ابی شیبہ:4/62،دارالکتب)

ترجمہ: حضرت عمران بن حصین سے اس آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیں ،فرمایا اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی۔

آیت”الطلاق مرتٰن” سے استدلال اس لئے درست نہیں کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ رجوع کا حق دو طلاق تک ہے تیسری کے بعد رجوع کا کوئی اختیار نہیں اور قرآنِ کریم میں ایک یا ایک جملہ کی کوئی قیدوغیرہ نہیں ، لہٰذا جو آدمی بھی دو سے زیادہ یعنی تین طلاقیں دے اس آیت کی رو سے اس کے لئے رجوع کا کوئی اختیار نہیں،جب تک یہ عورت آگے دوسرا نکاح نہ کر لے، جیسا کہ اگلی آیت میں اس کا ذکر ہے ،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ” (البقرہ:30)

واللہ اعلم بالصواب
عبدالقدوس بن خیرالرحمٰن
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
18/6/1442/2021/2/1
جلد نمبر:23 فتوی نمبر:10

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔