سوال

موجودہ زمانے میں کسی باطل یا دائرۂ اسلام سے خارج فرقے کے ساتھ مباہلہ کیا جاسکتا ہے؟

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

عصرِحاضر میں مباہلہ سے متعلق حضرت اقدس مولانا مفتی رشید احمد صاحب نوراللہ مرقدہ نے ”احسن الفتاوی “میں بہت ہی راہنما تحریر رقم فرمائی ،چنانچہ آپ فرماتے ہیں

”اگر مباہلہ کی مشروعیت کسی دلیل سے ثابت بھی ہو جائے تو بھی اس زمانے میں مفاسد ذیل کی وجہ سے جائز نہیں ۔(1)بیان القرآن میں مباہلہ کا فائدہ ”قطع نزاع لسانی “لکھا ہے ،اس زمانے میں عوام وخواص مباہلہ کی اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں۔(2) ان کو اگر سمجھا بھی دیا جائے کہ مباہلہ کی حقیقت صرف ”قطع نزاع لسانی “ہے ،تو بھی اس سے نزاع ختم ہونے کی بجائے اور زیادہ بڑھتا ہے ،جانبین ایک دوسرے پر طرح طرح کے الزامات لگا کر بے شمار نئے نزاعات کھڑے کردیتے ہیں۔(3) ہر فریق دوسرے کی ہر آفت ومصیبت کو مباہلہ کا نتیجہ قرار دینے لگتے ہیں ۔(4) اہلِ حق پر قدرۃکوئی ابتلاء آگیا تو عوام کی گمراہی کا باعث ہوگا ۔(5) اس زمانے میں عوام وخواص کا عقیدہ راسخہ یہ ہے کہ مباہلہ پر نتیجہ متعینہ کا ترتب لازمی ہے،اس کو اللہ تعالٰی کا قطعی فیصلہ سمجھتے ہیں ،حالانکہ یہ خیال بالکل بے دلیل اور سراسر غلط ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زوجین میں لعان ہوا مگر سوائے تفریق کے کسی پر کوئی آفت نہ آئی ۔
اس حقیقت کے مطابق اگر اس دور میں مباہلہ کے بعد فریقین میں کسی پربھی کوئی آفت نہ آئی تو لوگوں کو بزعم خویش اللہ تعالٰی کے قطعی فیصلہ میں تردد ہوگاجو کفر ہے۔(6)نصوصِ شرعیہ وعلمائے اسلام کے مقابلہ میں جاہل وگمراہ پیر مباہلہ کی دہائی دے کر عوام میں اپنا مقام پیدا کرنا چاہتے ہیں لہذا ان کی طرف سے دعوت مباہلہ کو قبول کرلینا ہی ان کی کامیابی ہے۔(7)اگر ہر جاہل پیر کی دعوت مباہلہ کو علمائے اسلام قبول کرکے اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے لگیں اور اللہ تعالٰی ان سے اپنے دین کی جو اہم خدمات جلیلہ لےرہے ہیں ان میں نقص و خلل ڈالنے لگیں تو یہی شیطان اور اس کے اولیاء کی بہت بڑی کامیابی ہے۔حضرت ابن مسعود وابن عباس رضی اللہ عنھم سے مخالف کو دعوتِ مباہلہ دینا منقول ہے۔

قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالیٰ :”فان قلت :ھل یشرع الدعاء باللعن علی الکاذب المعین؟قلت:فی غایۃ البیان من العدۃ وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ: انہ قال :من شاء باہلتہ ان سورۃ النساء القصری نزلت بعد التی فی سورۃ البقرۃ ای من شاء المباہلۃ ای الملاعنۃ باھلتہ ،وکانوا یقولون اذا اختلفوا فی شئ بہلۃ اللہ علی الکاذب منا قالوا ھی مشروعۃ فی زماننا ایضا ” (البحرالرائق:4/196،رشیدیہ)
وکذا نقل عنہ العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ (ردالمحتار:2/589)
وقال العلامۃ الالوسی رحمہ اللہ تعالیٰ : ومن ذھب الی جواز المباہلۃ الیوم علی طرز ما صنع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استدل بما اخرجہ عبید ابن حمید عن قیس بن سعد ان ابن عباس رضی اللہ عنہما کان بینہ وبین آخر شئ فدعاہ الی المباہلۃ وقرأ الآ یۃ ورفع یدیہ فاستقبل الرکن. (تفسیر روح المعانی:3/168)

اگر یہ روایات باسناد صحیحہ ثابت ہوجائیں تو ان حضرات کا یہ عمل غرض قطع نزاع لسانی پر محمول ہوگا جو اس زمانے میں مفقود ہے۔
علاوہ ازیں ان کے زمانے میں وہ دوسرےمفاسد بھی نہیں تھے جن کی تفصیل اوپر لکھی گئی ہے ،لہٰذا اب مباہلہ جائز نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب
عبدالقدوس بن خیرالرحمٰن
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
6/8/1442/2021/4/19
جلد نمبر:24 فتوی نمبر:126

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔