سوال

ہمارے گاؤں میں کچھ دنوں سے جمعہ کی نمازکے بارے میں بات چل رہی ہے، احباب کا اصرار ہے کہ نمازِ جمعہ گاؤں میں ہی ادا کی جائے، گاؤں کے احوال کو دیکھتے ہوئے آپ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ شریعت کا کیا حکم ہے؟ گاؤں میں آبادی ساٹھ سے ستر گھر ہیں اور مسجد میں نمازیوں کی تعداد بیس سے پچیس ہے۔ ایک دوکان ہے جس سے تمام ضرورت کی چیزیں میسر نہیں ہوتیں، سبزی گوشت وغیرہ نہیں ملتا اور کپڑے وغیرہ کی بھی کوئی دوکان نہیں ہے، ڈاکٹر کی سہولت بھی نہیں ہے، غرضیکہ ضرورتہائے زندگی کا کوئی مناسب نظم نہیں ہے۔ اڑھائی تین کلومیٹر قریب بڑا گاؤں ہے جس سے تمام ضروریات مثلاً کھانا، پینا، راشن، دوا، تعلیم وغیرہ پوری کی جاتی ہیں۔ ازراہِ کرم آپ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہم اپنے گاؤں میں نمازِ جمعہ ادا کرسکتے ہیں یا حسبِ سابق ساتھ والے گاؤں میں اداکریں۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائیں، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پڑوس نصیب فرمائیں۔

جواب

الجواب حامداً ومصلیاً

جمعہ کے صحیح ہونے کے لئے ایسا بڑا شہر یا قصبہ ہونا ضروری ہے جس میں اکثر ضروریاتِ زندگی بآسانی میسر ہوں۔ مثلاً اس میں ایسا بازار ہو جس میں کریانہ، منیاری اور جوتے کپڑے کی دوکانیں، آٹاچکی، میڈیکل سٹور اور ڈاکٹر، لوہار و درکھان وغیرہ موجود ہوں۔
چونکہ مذکورہ گاؤں میں اکثر ضروریاتِ زندگی میسر نہیں ہیں اس لئے وہاں جمعہ جائز نہیں ہے۔

لما فی المحیط البرھانی:(2/439،ط: دار احیاء التراث العربی)
ظاھر المذھب ان المصر الجامع ان یکون فیہ جماعات الناس و جامع و اسواق للتجارات .. . الخ
وفی الشامیہ:(2/137،ط: رشیدیہ)
عن ابی حنیفۃ انہ بلدۃ کبیرۃ فیھا سکک و اسواق و لھا رساتیق و فیھا وال یقدر علی انصاف المظلوم من الظالم بحشمتہ و علمہ او علم غیرہ یرجع الناس الیہ فیما یقع من الحوادث و ھذا ھو الاصح
وکذافی بدائع الصنائع:(1/585،ط: رشیدیہ)
وکذا فی البحر الرائق:(2/246،ط: رشیدیہ)
وکذا فی الفتاوی التاتارخانیہ:(2/547-549،ط: فاروقیہ کوئتہ)

واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد زکریا غفرلہ
دارالافتاء جامعۃ الحسن ساہیوال
8/8/1442/2021/3/23
جلد نمبر:24 فتوی نمبر:53

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔